ڈی آئی جی آپریشنز لاہور علی ناصر رضوی نے کہا ہے کہ چودہ سالہ ارسلان نسیم کے والد کی موت کے حوالے سے سوشل میڈیا پر پولیس کے خلاف پروپیگنڈہ حقائق کے برعکس ہے۔
قلعہ گجر سنگھ لاہور میں پریس کانفرنس کے دوران علی ناصر رضوی نے کہا کہ چودہ سالہ ارسلان رفیق 1271/23 کے مقدمہ میں ڈیڑھ ماہ جیل میں رہنے کے بعد 9 اگست کو ضمانت پر رہا ہوا۔
انھوں نے کہا کہ ارسلان 10 مئی کو درج ہونے والے دوسرے مقدمے میں بھی مطلوب تھا، حکمنامہ طلبی کے ذریعے اسے طلب کیا گیا لیکن ارسلان پیش نہیں ہوا۔
علی ناصر کے مطابق 10 اور 11 اگست کی رات کو حکمنامہ طلبی کیلئے اس کے گھر پولیس گئی لیکن وہاں تالا لگا ہوا تھا۔
ڈی آئی جی آپریشنز لاہور کا کہنا ہے کہ پولیس کی طرف سے ارسلان کے والد پر کوئی تشد نہیں کیا گیا اور نہ ہی ارسلان کے والد کی وفات پولیس تشدد سے ہوئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ پولیس نے سوشل میڈیا پر منفی پروپیگنڈہ کرنے والوں خلاف ایف آئی اے سائبر کرائم سے رجوع کر لیا ہے۔
واضح رہے کہ 14 اگست سے سوشل میڈیا پر کچھ صحافی اور یوٹیوبر ایک واقعے کی تفصیل شیئر کر رہے ہیں جس میں ان کا دعویٰ ہے کہ لاہور میں 14 سالہ ارسلان نسیم کو ضمانت کے باوجود پولیس نے دوبارہ گرفتار کرنے کی کوشش کی ہے۔
سوشل میڈیا پر کہا جارہا ہے کہ گھر سے لڑکا برآمد نہ ہونے پر اس کے والد کو حراست میں لیا گیا۔
سوشل میڈیا پر دی جانے والی غیر مصدقہ خبر کے مطابق ان کے والد محمد نسیم کو پولیس نے مبینہ تشدد کا نشانہ بنایا اور ہارٹ اٹیک سے ان کی موت واقع ہو گئی تاہم پولیس نے سوشل میڈیا پر چلنے والی ان خبروں کی تردید کی ہے۔