اسرائیل پر حملہ کرنے کیلئے حماس نے مسلح گروہوں کو کیسے منظم کیا؟ جنگ نے مشرقی وسطی نقشہ کا نقشہ ہی بدل ڈالا

سات اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد اسرائیل اور فلسطین کے درمیان جنگ ایک ماہ سے ذائد تک جاری رہی جس کے بعد فریقین جنگ بندی پر آمادہ ہوگئے لیکن یہاں ایک سوال نے جنم لیا کہ آخر حماس نے اتنی بڑی قوت کے ساتھ حملہ کیسے کیا۔

برطانوی نشریاتی ادارے کے مطابق اسرائیل پر ہونے والے حملے میں حماس سمیت پانچ مسلح گروہوں کی اجتماعی کارروائی تھی اور یہ پانچ گروہ 2020 سے فوجی طرز کی مشقوں میں حصہ لے کر تربیت حاصل کر رہے تھے۔

ان پانچ مسلح گروہوں نے 2020 کے بعد سے غزہ میں اس نوعیت کی فرضی مشترکہ مشقیں کیں، جو کہ اسرائیل پر سات اکتوبر کو ہونے والے حملوں میں اپنائی گئی تیکنیک ملتی جلتی ہیں۔

مسلح گروہوں نے تربیتی مراحل میں یرغمال بنائے جانے، کمپاؤنڈز پر چھاپے مارنے اور اسرائیل کے دفاع کی خلاف ورزی کی فرضی مشقیں بھی شامل تھیں اور ان میں سے آخری مشق حملے سے صرف 25 دن پہلے کی گئی تھی۔

شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ کس طرح حماس نے غزہ کے مختلف مسلح گروہوں کو جنگی حربے بہتر بنانے کی غرض سے ایک جگہ جمع کیا اور ایک ایسا حملہ کیا، جس نے خطے کو جنگ کی لپیٹ میں لے لیا۔

حماس اس سے قبل بھی اسرائیل کے ساتھ گذشتہ تنازعات کے دوران دیگر مسلح گروپوں کے ساتھ مل کر لڑائی لڑ چکا ہے اور2020 میں مشترکہ عسکری مشقیں اس بات کا ثبوت تھیں کہ مسلح گروہوں کی ایک بڑے مقصد کے لیے متحد کیا جارہا تھا۔

حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کے کمانڈر ایمن نوفل کا کہنا ہے کہ 26 دسمبر2021 کو ہونے والی دوسری مشق کا مقصد مزاحمتی دھڑوں کے اتحاد کے عزم کا اعادہ کرنا تھا، فرضی مشقوں کا مقصد دشمن کو یہ باور کروانا ہے کہ غزہ کی سرحد پر بنائی گئی دیواریں اور دیگر حفاظتی اقدامات ان کو بچا نہیں پائیں گے۔

ان مشقوں کو28 دسمبر2022 کو دہرایا گیا تھا، جبکہ اسرائیلی فوج نے17 اکتوبر 2023 کو غزہ پر کیے گئے ایک حملے کے دوران نوفل کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔

خیال رہے کہ اسرائیل کے پاس ان تمام فرضی مشقوں کی اطلاعات اور تفصیلات موجود تھیں، یہ ناقابل فہم ہے کہ ملک کی متحرک انٹیلیجنس ایجنسیوں کی طرف سے ان مشتوں کی کڑی نگرانی کیوں نہیں کی جا رہی تھیں۔

ماضی میں اسرائیلی فوج حماس کی تربیتی سرگرمیوں میں رکاوٹیں ڈالنے کے لیے متعدد فضائی حملے کر چکی ہے۔ رواں سال اپریل 2023 میں انہوں نے اس جگہ بمباری کی تھی، جو ’سٹرانگ پلر‘ کی پہلی فرضی مشق کے لیے استعمال ہوئی تھی۔

خیال رہے کہ حملوں سے ایک ہفتے پہلےغزہ کی سرحد کی نگرانی پر مامور سپاہیوں نے مبینہ طور پر حماس کی غیر معمولی ڈرون کارروائیوں سے متعلق خبردار کیا تھا کہ جنگجو فرضی پوسٹوں پر قبضہ کرنے کی تربیت میں مسروف ہیں لیکن اسرائیلی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ان خدشات کو نظر انداز کر دیا گیا تھا۔

بی بی سی ویریفائی نےغزہ کے انتہائی شمال میں سرحد سے صرف 800 میٹر کے فاصلے پر تربیتی فوٹیج میں نظر آنے والی جغرافیائی خصوصیات کو علاقے کی فضائی تصاویر سے ملا کر اس جگہ کی نشاندہی کی ہے۔ تربیتی کیمپ اسرائیلی آبزرویشن ٹاور اور ایک بلند آبزرویشن باکس کے 1.6 کلومیٹر کے دائر میں تھا، جس کی تعمیر میں اسرائیل نے سینکڑوں ملین ڈالر خرچ کیے ہیں۔

یاد رہے کہ حماس نے سات اکتوبرکو اس مقام کو اسرائیلی عمارتوں پر حملہ کرنے، گن پوائنٹ پر اسرائیلی شہریوں کو یرغمال بنانے اور حفاظتی رکاوٹوں کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا تھا۔ بی بی سی ویریفائی کے مطابق غزہ میں 14 تربیتی مقامات کا پتا لگانے کے لیے سیٹلائٹ کی تصویروں سمیت عوامی طور پر دستیاب معلومات کا استعمال کیا ہے۔

10 ستمبر 2023 کو غزہ کے مسلح گروہوں کے مشترکہ کنٹرول روم نے اپنے ٹیلی گرام چینل پر فوجی وردیوں میں ملبوس مردوں کی تصاویر شائع کیں، جو فوجی تنصیبات کی نگرانی کر رہے تھے۔ حماس کے جنگجوؤں کو فرضی مشقوں کے دوران جن سفید ٹویوٹا پک اپ ٹرکوں میں سوار دکھایا گیا، یہ وہی ٹرک ہیں جو اگلے ہی ماہ جنوبی اسرائیل میں گھومتے ہوئے دیکھے گئے تھے۔

ویڈیوز میں کشتی میں سوار غوطہ خوروں کی مدد سے ساحل پر دھاوا بولنے کی تربیت بھی دکھائی دے رہی ہے، جبکہ اسرائیل نے کہا ہے کہ اس نے سات اکتوبر کو حماس کی کشتیوں کو اپنے ساحلوں تک پہنچنے کی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا تھا۔

حماس نے پیراگلائیڈنگ کا سامان استعمال کرنے والے جنگجوؤں کی فوٹیج بھی اس وقت تک شائع نہیں کی گئی، جب تک سات اکتوبر کا حملہ نہیں ہوا تھا اور حملے کے دن شیئرکی جانے والی ایک تربیتی ویڈیو میں مسلح جنگجووں کو ایک فرضی فضائی پٹی پر اترتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

بی بی سی ویریفائی کے مطابق کیا کہ یہ ویڈیو 25 اگست 2022 سے کچھ پہلے ریکارڈ کی گئی تھی اور اسے ’ایگل اسکواڈرن‘ کے نام سے ایک کمپیوٹر فائل میں محفوظ کیا گیا تھا۔ ایگل سکواڈرن کا نام حماس اپنے فضائی ڈویژن کے لیے استعمال کرتا ہے۔

اسرائیلی فوج کے کمانڈروں کی رپورٹس کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر سے پہلےغزہ کی پٹی میں حماس کے تقریباً 30 ہزار جنگجو موجود تھے، اس بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ حماس چھوٹے گروپوں کے ہزاروں جنگجوؤں کو اپنے ساتھ ملا سکتا ہے، جبکہ حماس ابھی تک دوسرے دھڑوں کی حمایت کے بغیر بھی فلسطینی مسلح گروپوں میں سب سے زیادہ طاقتور ہے۔

اسرائیلی فوج کے ایک اندازے کے مطابق سات اکتوبر کے حملوں کے لیے 1,500 جنگجو شامل ہوئے، ٹائمز آف اسرائیل نے رواں ماہ کے شروع میں رپورٹ کیا کہ اسرائیلی فوج کو اب یقین ہے کہ یہ تعداد تین ہزار کے قریب تھی۔

یورپی کونسل آن فارن ریلیشنز کے مشرق وسطیٰ کے تجزیہ کار ہیو لوواٹ نے کہا کہ اسرائیل کو مشترکہ تربیتی مشقوں کا علم تھا لیکن وہ اسےنیم فوجی گروپوں کی عام سی سرگرمی جان کر بڑے پیمانے پر ہونے والے حملے کے بارے میں نہیں جان پائے۔

واضح رہے کہ اسرائیل کو یہ تسلیم کرنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں کہ سات اکتوبر کے واقعات کو روکنے کے لیے اس نے کئی مواقع ضائع کیے ہیں۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں