ہفتے کی صبح گولف کارٹس، وینوں، گلائیڈرز اور موٹر سائیکلوں پر حماس کے جنگجو اسرائیل پر حملہ آور ہوئے اور درجنوں اسرائیلی شہریوں اور فوجیوں کو یرغمال بنا کر غزہ میں لے گئے۔
فلسطینی گروپ نے کہا ہے کہ وہ اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی رہائی کے لیے گرفتار اسرائیلیوں کو استعمال کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ اس کے پاس تمام فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے کے لیے کافی اسرائیلی قیدی ہیں۔
لیکن اس وقت کتنے فلسطینی اسرائیلی حراست میں ہیں اور ان میں سے کتنے بچے ہیں؟
اسرائیل کی جیلوں میں فلسطینی
بہت سے لوگوں کا استدلال ہے کہ پورا غزہ ہی مؤثر طور پر ایک کھلی جیل ہے جہاں 22 لاکھ لوگوں وک اسرائیل نے ایک چھوٹے سے ساحلی علاقے میں قید کر رکھا ہے۔
لیکن حقیقت یہ ہے اسرائیلی جیلوں میں قید فلسطینیوں کی تعداد بھی تقریباً اتنی ہی ہے۔
اقوام متحدہ کی گزشتہ موسم گرما میں جاری رپورٹ کے مطابق 1967 میں جب اسرائیل نے مشرقی یروشلم، غزہ اور مغربی کنارے پر قبضہ کیا، تب سے اس نے اندازاً دس لاکھ فلسطینیوں کو گرفتار کیا ہے۔
اسرائیلی فوج کے زیرتسلط رہنے والے فلسطینیوں کی زندگی کے ہر پہلو کو کنٹرول کرنے والے 1600 فوجی احکامات کے تحت ہر پانچ میں سے ایک فلسطینی کو گرفتار کیا گیا ہے اور ان پر فرد جرم عائد کی گئی ہے۔
فلسطینی مردوں کے لیے قید کی یہ شرح دوگنی ہو جاتی ہے، یعنی ہر پانچ میں سے دو کو گرفتار کیا گیا ہے۔
اس کے مقابلے میں امریکا جو کہ دنیا کی سب سے بڑی جیلوں کے لیے بدنام ملک ہے، وہاں 200 میں سے ہر ایک شخص قیدی ہے اور سیاہ فام امریکی قیدیوں کی شرح مجموعی شرح سے تین گنا زیادہ ہے۔ لیکن یہ فلسطینیوں کے جیل میں وقت گزارنے کے امکانات کے اوسط کا ایک چھوٹا حصہ ہے۔
عرب خبر رساں ادارے ”الجزیرہ“ کے مطابق فلسطینی قیدیوں کے حقوق کے گروپ ”ادامیر“ نے اسرائیلی جیلوں کے نظام کو ’ قوانین، طریقہ کار، پالیسیوں اور تباہ کن مشینری کی شکل میں ایک پیچیدہ ڈیزائن قرار دیا ہے جسے ختم کرنے اور قتل کرنے کے لیے تشکیل دیا گیا ہے’۔
آج اسرائیل کی سلاخوں کے پیچھے موجود فلسطینیوں کی تعداد 5200 ہے جن میں 33 خواتین اور 170 بچے شامل ہیں۔ اگر مقدمہ چلایا جائے تو فلسطینی قیدیوں کے خلاف فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایا جاتا ہے۔
تو، اتنے قیدی کیوں ہیں؟
1967 کی جنگ میں اسرائیل کے فلسطینی اور عرب علاقوں پر قبضے کے دو ماہ بعد اس کی حکومت نے ملٹری آرڈر 101 جاری کیا، جس میں بنیادی طور پر ”مخالفانہ پروپیگنڈے اور اشتعال انگیزی کی ممانعت“ کی بنیاد پر شہری سرگرمیوں کو مجرمانہ قرار دیا گیا۔
یہ حکم، جو ابھی تک مقبوضہ مغربی کنارے میں زیرِ استعمال ہے، مظاہروں میں شرکت اور تنظیم، سیاسی مواد کی طباعت اور تقسیم، جھنڈے اور دیگر سیاسی علامتیں لہرانے، اور کسی بھی ایسی سرگرمی کو غیر قانونی قرار دیتا ہے جو فوجی احکامات کے تحت غیر قانونی سمجھی جانے والی تنظیم کے لیے ہمدردی کا اظہار کرتی ہو۔
تین سال بعد اسرائیلی حکومت کی طرف سے ایک اور فوجی حکم (378) جاری کیا گیا۔ اس نے فوجی عدالتیں قائم کیں، اور بنیادی طور پر اسرائیلی قبضے کے خلاف فلسطینی مزاحمت کی تمام اقسام کو ”دہشت گردی“ کے طور پر کالعدم قرار دے دیا۔
اس کے بعد سے اب تک سینکڑوں دیگر فوجی احکامات جاری کیے گئے ہیں اور ان پر عمل درآمد کیا جا چکا ہے تاکہ فلسطینی شہریوں اور ان کے سیاسی اظہار کو روکا جا سکے۔
اسرائیل کی کتنی جیلوں میں فلسطینی قیدی موجود ہیں؟
اسرائیل کے اندر 19 اور مقبوضہ مغربی کنارے میں ایک جیل ہے جن میں فلسطینی قیدی ہیں۔
چوتھے جنیوا کنونشن کے تحت کسی قابض طاقت کے لیے مقبوضہ علاقے سے وہاں کے لوگوں کو منتقل کرنا بین الاقوامی قانون کے خلاف ہے۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل بھی کہہ چکا ہے کہ ’یہ غیر قانونی اور ظالمانہ اقدام ہے اور اس کے قید کیے گئے شخص اور ان کے چاہنے والوں کے لیے نتائج تباہ کن ہو سکتے ہیں، جو اکثر مہینوں اور بعض اوقات سالوں تک انہیں دیکھنے سے محروم رہتے ہیں‘۔
انتظامی حراست کیا ہے؟
الجزیرہ کے مطابق اس وقت کم و بیش 1264 فلسطینی اسرائیل کی انتظامی حراست میں ہیں، جس کا مطلب ہے کہ انہیں بغیر کسی مقدمے یا الزامات کے غیر معینہ مدت کے لیے سلاخوں کے پیچھے رکھا گیا ہے۔
یہ عمل، برطانوی مینڈیٹ کے دور کا قانون ہے اور ”خفیہ ثبوت“ کی بنیاد پر غیر معینہ مدت اس کی حراستی میعاد بڑھائی جاسکتی ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ کوئی قیدی بغیر کسی الزام کے کئی ماہ جیل میں گزار سکتا ہے۔
اگرچہ اسرائیل کا کہنا ہے کہ یہ طریقہ کار حکام کو مشتبہ افراد کو پکڑنے کی اجازت دیتا ہے اور اس دوران وہ شواہد اکٹھے کرنا جاری رکھتے ہیں، تاہم، ناقدین اور انسانی حقوق کے گروپوں کا کہنا ہے کہ اس نظام کے ساتھ بڑے پیمانے پر زیادتی کی گئی ہے اور وہ مناسب عمل سے انکاری ہے۔
اسرائیل نے کتنے فلسطینی بچوں کو گرفتار کیا ہے؟
سن“2000“ میں دوسرے ”انتفاضہ“ شروع ہونے کے بعد سے اب تک 12000 سے زائد فلسطینی بچوں کو اسرائیلی فورسز نے حراست میں لیا ہے۔
ہر سال مقبوضہ مغربی کنارے کے 18 سال سے کم عمر کے کم از کم 700 فلسطینی بچوں کو اسرائیلی فوج کے ہاتھوں گرفتار، پوچھ گچھ اور حراست میں لینے کے بعد اسرائیلی فوجی عدالتوں کے ذریعے ان پر مقدمہ چلایا جاتا ہے۔
ادامیر بچوں کی گرفتاری اور قید کو منظم اور اجتماعی سزا کی مہم کا حصہ قرار دیتا ہے۔
سب سے عام الزام پتھر پھینکنا ہے، جس کی زیادہ سے زیادہ سزا 20 سال ہے۔
بچوں کے حقوق کے گروپوں کے مطابق، بچوں کو اکثر جسمانی اور نفسیاتی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ ان سے والدین یا وکیل کی موجودگی کے بغیر پوچھ گچھ کی جاتی ہے۔
ناقدین نے اسرائیل پر الزام لگایا ہے کہ وہ ان کی حراست کا فائدہ اٹھا کر انہیں مخبر بنانے اور ان کے خاندانوں کو بھاری جرمانے پر مجبور کر کے مالی طور پر استحصال کر رہا ہے۔
فلسطینی بچوں کے خلاف اسرائیلی فوجی احکامات
اسرائیل کے ملٹری آرڈر 1726 میں کہا گیا ہے کہ بچوں کو فرد جرم عائد کرنے سے پہلے 15 دن تک روک تھام کے لیے حراست میں رکھا جا سکتا ہے اور ایک فوجی عدالت اس حراست میں ہر بار 10 دن تک زیادہ سے زیادہ 40 بار توسیع کر سکتی ہے۔
ملٹری آرڈر 1745 میں یہ شرط رکھی گئی ہے کہ بچوں سے پوچھ گچھ کے سیشنوں کو آڈیو ویڈیو طور پر اس زبان میں ریکارڈ کیا جانا چاہیے جو بچوں کی سمجھ میں آتی ہے، لیکن اس میں حفاظتی بہانوں کے تحت گرفتار کیے گئے بچوں کو شامل نہیں کیا جاتا جس سے مراد تمام زیر حراست فلسطینی بچے ہیں۔
ملٹری آرڈر 132 کے تحت، 16 سال اور اس سے زیادہ عمر کے فلسطینی بچوں پر پہلے اسرائیلی فوجی عدالتوں نے بالغوں کے طور پر مقدمہ چلایا اور انہیں سزا سنائی۔
مزید برآں، فلسطینی بچوں کو سزا ان کی سزائے سنائے جانے کے وقت عمر کے مطابق سنائی جاتی تھی ناکہ اس عمر کے مطابق جب اس بچے نے مبینہ جرم کیا ہو۔
اگست 2016 میں اسرائیل نے اپنا قانون تبدیل کیا جس میں کہا گیا تھا کہ 14 سال سے کم عمر بچوں کو مجرمانہ طور پر ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
ایسا اس لیے کیا گیا کیونکہ اسرائیلی حکام نے 13 سالہ احمد منصورہ جس پر قتل کی کوشش کا الزام تھا، اسے 12 سال کی سزا سنانے سے پہلے اس کے 14 سال کے ہونے کا انتظار کیا۔