اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ نیب کیس میں چئیرمین پی ٹی آئی عمران خان کی ضمانت بحال کر دی۔ 190 ملین پاؤنڈ اسکینڈل میں گرفتاری کی وجہ سے درخواست غیر موثر قرار دے دی گئی۔اسلام آباد ہائیکورٹ نے نیب کی گرفتاری درست قرار دے دی۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے محفوظ فیصلہ جاری کر دیا۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس طارق محمور جہانگیری پر مشتمل ڈویژن بنچ نے 190 ملین پائونڈ سکینڈل اور توشہ خانہ نیب کیسزمیں چیئرمین پی ٹی آئی کی ضمانت بحالی کی دو درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
جمعہ کے روز سماعت کے دوران سردار لطیف کھوسہ، شہباز کھوسہ اور دیگر وکلاء عدالت پیش ہوئے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ وزارت قانون سے بلایا تھا کدھر ہیں، سردار لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ ینگ کھوسہ دلائل دیں گے ، جس پر چیف جسٹس نے سردار لطیف کھوسہ سے کہاکہ آپ کو مبارک ہو، دوران سماعت وزارت قانون حکام نے تفصیلات عدالت کے سامنے پیش کر دیں۔
عدالت نے استفسار کیاکہ یہ بتائیں میڈیا میں تھا ابھی چیئرمین پی ٹی آئی کا کیا اسٹیٹس ہے ؟،جس پر نیب پراسیکیوٹر محمد رافع نے بتایاکہ 190 ملین پائونڈ کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری ڈال دی ہے،گرفتاری ہونے کے بعد چیئرمین پی ٹی آئی کی یہ درخواست غیرموثر ہوگئی۔ سردار شہباز کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ ہمیں میڈیا اورکلائنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اس پر چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیئے کہ اب آپ یہ جو والد صاحب کے لئے کہہ رہے ہیں وہی ٹریٹمنٹ ان سے چاہتے ہیں؟،شہباز کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ9مئی کو نیب نے ہی چیئرمین پی ٹی آئی کو اسلام آباد ہائیکورٹ سے گرفتار کیا،اب پھر انھوں نے اسی کیس میں گرفتاری ڈال دی۔ وکیل سردار شہباز کھوسہ نےسپریم کورٹ کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ نو مئی کی چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری کا آرڈر سپریم کورٹ نے واپس کردیا تھا، نیب نے جس بنیاد پر اعتراض لیکر اب گرفتاری ڈال دی ہے تو اس کو بھی عدالت نے دیکھنا ہے،اس معزز عدالت نے ہائیکورٹ کی حدود سے ہونیوالے گرفتاری کو قانونی قرار دیا، ،سردار شہباز کھوسہ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کی کاپی بھی عدالت میں پیش کردی، جسٹس طارق محمود جہانگیری نے کہاکہ آپ اس وقت توشہ خانہ کیس کی درخواست پر دلائل دے رہے ہیں ؟دوسرے کیس میں تو گرفتاری ہوچکی، سردار شہباز کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ جس کیس میں گرفتاری ہوچکی ہے اس کیس میں دلائل دے رہا ہوں۔
سردار لطیف کھوسہ ایڈووکیٹ نے کہاکہ 18 اکتوبر کو ہم نے یہاں درخواست دائر کی 19 اکتوبر کو نیب نے کہا گرفتاری نہیں کرنا،23 اکتوبر کو بھی نیب نے کہا ہم نے گرفتار نہیں کرنا،نیب نے عدالت کو مس لیڈ کرنے کی کوشش کی، عدالت نے استفسار کیاکہ آپ نے کہا تھا ابھی گرفتار نہیں کرنا ؟،جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہاکہ ہم نے ایک کیس میں گرفتار کیا ہے،میں معذرت چاہتا ہوں لیکن کوئی بدنیتی نہیں تھی، عدالت نے نیب پراسیکیوٹرسے کہاکہ نیب نے یہ غلط کیا ہے دو ہفتے آپ کی وجہ سے گذر گئے۔فریقین کے دلائل مکمل ہوجانے پر عدالت نے چیئرمین پی ٹی آئی کی ضمانت بحالی سے متعلق دونوں درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کیا جو اب سنا دیا گیا ہے۔