افغانستان اور پاکستان کے درمیان تجارتی حجم میں نمایاں کمی‘کابل اور تہران کے درمیان تجارت میں اضافہ کابل کا چابہار بندرگاہ میں خصوصی اکنامک زون پر 35 ملین ڈالر کے تعمیراتی اور سرمایہ کاری کے منصوبے کا اعلان‘ پاکستانی حکومت کو اپنی پالیسی کو ویویو کرنا چاہیے کیونکہ تجارت کے علاوہ توانائی کے بحران سے نکلنے کے لیے پاکستان کے پاس سب سے سستا آپشن وسط ایشیائی ریاستوں سے گیس اور تیل کا حصول ہے. ماہرین

افغانستان کی طالبان حکومت نے ایران کی جنوبی بندرگاہ چابہار میں 35 ملین ڈالر کے تعمیراتی اور سرمایہ کاری کے منصوبے کا اعلان کیا ہے افغانستان میں ایران کے سفیر حسن کاظمی قمی نے کہا کہ 35 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری سے تجارتی، رہائشی اور انتظامی سمیت مختلف منصوبوں پر کام شروع ہو گیا ہے یہ اقدام افغان پناہ گزینوں کے حوالے سے ایران کے حالیہ اقدامات کے پس منظر میں سامنے آیا جس میں بڑے پیمانے پر ایران سے افغان شہریوں کی بے دخلی کی اطلاع سامنے آئی تھی

نشریاتی ادارے ”ایران انٹرنیشنل“کے مطابق چابہار بندرگاہ پر افغانستان کے لیے ایک خصوصی اکنامک زون قائم کیا جارہا ہے جس کے بعد ایران اور افغانستان کے درمیان تجارت کا حجم بڑھ جائے گاچابہار اکنامک زون پر افغانستان کی طالبان حکومت 35ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کرئے گی. قبل ازیں افغانستان اپنی80فیصد سے زیادہ تجارت پاکستان کے راستے کرتا تھا تاہم پاکستان کی جانب سے سرحد بند کرنے‘راہداری ٹیکس میں اضافے اور دیگر ہابندیوں کے پیش نظرافغان تاجروں نے ایران اور وسط ایشیائی ریاستوںکے متبادل روٹس کا رخ کیا کے پی کے میںپاکستان ‘افغانستان جوائنٹ چیمبر آف کامرس اورکابل میں افغانستان چیمبر آف کامرس اینڈانویسٹمنٹ نے اس معاملے کو حکام تک پہچانے اور حل تلاش کرنے کی کوشش کی تاہم انہیں کامیابی نہیں ملی.

افغان صوبے قندھار سے تعلق رکھنے والے تاجرصالح الکوزی خطے میں خشک میوہ جات برآمد کرنے والے بڑے تاجروں میں سے ایک ہیں ان کا کہنا ہے انہوں نے سامانِ تجارت اب پاکستان کی بجائے ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کی بندرگاہوں کے ذریعے برآمد کرنے کا فیصلہ کیا ہے ’سپن بولدک، چمن کراسنگ بند ہونے کے بعد میں نے اپنا سامان ایران کے راستے برآمد کرنا شروع کیا اور ازبکستان اور قازقستان کے راستوں سے بھی کچھ مال برآمد کیا اور گذشتہ دنوں میں میں نے ایران میں نمروز اور بندر عباس کے ذریعے 156 ٹن میوہ جات ازبکستان، قازقستان جبکہ چین کے ذریعے 50 ٹن پھل برآمد کیے ہیں.

انہوں نے دعوی کیا کہ تجارت اور سکیورٹی سے متعلق پاکستان کے حالیہ اقدامات نے افغان تاجروں کو’ ’غریب“ بنا دیا تھا اور افغان تاجروں کے لیے ٹرانزٹ روٹ کو تبدیل کرنا ہی بہترین آپشن تھا انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے افغانستان کے ٹرانزٹ سامان کی 200 سے زائد اشیا پر 10 فیصد اضافی ٹیکس عائد کیا ہے یہ ٹرانزٹ گڈز ہیں اور ٹرانزٹ گڈز پر ٹیکس لگانے کا کسی کو حق نہیں، ایسی چیز کی کوئی اصولی بنیاد نہیں ہے.

ادھر پاکستان میں سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور پاک افغان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر فیض محمد فیضی نے بتایا کہ پاکستان کے حالات اور پاکستان افغانستان سرحد کی بار بار بندش سے تجارت پر منفی اثرات ضرور پڑے ہیں لیکن اب بھی پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت جاری ہے اور روزانہ لگ بھگ سات سو سے ساڑھے سات سو کنٹینر دونوں ممالک کے درمیان درآمدات اور برآمدات کے لیے گزرتے ہیں.

افغانستان چیمبر آف کامرس اینڈ انویسٹمنٹ کے بورڈ آف ڈائریکٹرز کے رکن خانجان الکوزی نے بتایا کہ پاکستان سے ایران تک ٹرانزٹ روٹ میں تبدیلی کی وجہ یہ ہے کہ اسلام آباد نے تقریباً پانچ ماہ قبل‘ ایک نیا ٹیکس لگایا تھا جو افغان تاجروں کی آمد و رفت پر تھا انہوں نے کہا کہ کراچی کی بندرگاہ افغانستان کے لیے سب سے قریبی اور سستا ٹرانزٹ روٹ رہی ہے لیکن پاکستان کی طرف سے سامنے آنے والے مسائل نے افغان تاجروں کو راستے تبدیل کرنے پر مجبور کر دیا ہے‘ افغان تاجروں کے سامان کے تقریباً چار ہزار کنٹینرز کراچی کی بندرگاہ پر تاخیر کا شکار ہوئے.

طالبان کی وزارت تجارت کے اعلیٰ اہلکار نے بھی تصدیق کرتے ہیں کہ حالیہ مہینوں میں پاکستان کے ساتھ تجارت اور ٹرانزٹ کی مقدار میں کمی آئی ہے اور یہ رجحان ایران کے ذریعے بڑھ رہا ہے طالبان کی وزارت تجارت نے پاکستان سے ایران کے تجارتی راستے کی بڑی تبدیلی کے اس عمل پر کوئی باضابطہ تبصرہ نہیں کیا لیکن وزارت تجارت کے مطابق حال ہی میں اس کی ایران کے ساتھ تجارت کو فروغ دینے کے لیے ہونے والی سرگرمیوں میں اضافہ ہوا ہے افغان تاجروں کا خیال ہے کہ طالبان حکومت اور پاکستان کی سابق عبوری اور پھر نگراں حکومت کے ادوار میں پیدا ہونے والے کشیدگی کے واقعات نے تاجروں کو متبادل راستے ڈھونڈنے پر مجبور کیا اور بیشتر تاجر اب خود کو اس سیاسی کشیدگی کا شکار سمجھتے ہیں.

صوبہ خیبرپختونخوا میں افغانستان پاکستان جوائنٹ چیمبر آف کامرس کے کوآرڈینیٹر ضیاالحق سرحدی نے بتایا کہ نہ صرف افغان تاجروں نے ایران اور وسط ایشیائی ممالک کو تقریباً 70 فیصدٹرانزٹ منتقل کیا بلکہ پاکستان سے افغانستان کو برآمدات کی مقدار میں بھی کمی آئی ہے جس کی وجہ سے دسیوں ہزار لوگ بیروزگار ہو گئے اور اس صورتحال کے باعث کچھ کارخانے یا پیداوری یونٹ بھی بند ہو گئے ہیں.

انہوں نے بتایا کہ افغان تاجر اس صورتحال سے بہت زیادہ متاثر ہوئے ہیں جنہوں نے ماضی قریب میں کراچی میں اپنا پھنسا ہوا سامان ایران کے بندر عباس منتقل کیا اور کچھ تاجروں نے کراچی کی بندرگاہ سے بندر عباس تک اپنا سامان لے جانے والے بحری جہازوں کی منزل بھی تبدیل کر دی تاہم صرف افغان تاجروں کو ہی نہیں بلکہ پاکستان کو بھی اس صورتحال میں خاصا نقصان اٹھانا پڑا ہے.

ضیاالحق سرحدی نے بتایا کہ افغانستان کو سامان کی ترسیل کے علاوہ پاکستان کی ملکی مصنوعات جن میں سیمنٹ، خوراک، پھلوں کا جوس، دودھ اور درجنوں دیگر اشیا جو افغانستان بھیجی جاتی تھیں، ا±ن کی برآمد کا عمل بھی متاثر ہوا ہے افغانستان، پاکستان اور وسطی ایشیا کے ممالک کے درمیان تجارت کے لیے ایک سنہری راستہ ہے لیکن طورخم اور سپین بولدک کراسنگ کی بندش اور طورخم کے دونوں جانب تجارتی سامان سے بھرے ہزاروں ٹرکوں کے بارہا ر±کنے سے تجارت میں خلل پڑا.

افغانستان سے درآمد کیے جانے والے تازہ پھل اور کپاس جو پاکستان میں کپڑے کے کارخانوں کی بنیادی ضروریات ہیں بھی متاثر ہوئے ہیں، اور تاجروں کو لاکھوں ڈالر کا نقصان ہوا ہے سرحدی کا کہنا ہے کہ گذشتہ برسوں میں بھی ایسا ہوتا رہا لیکن مشترکہ چیمبر آف کامرس کی کوششوں کے بعد کراچی کی بندرگاہ کے ذریعے تجارت اور آمدورفت دوبارہ شروع ہو جاتی مگر اب کی بار صورتحال کافی مختلف ہے انہوں نے بتایا کہ اس صورتحال کے جاری رہنے سے صوبہ خیبر پختونخوا میں معاشی بحران مزید بڑھ جائے گاکیونکہ اس صوبے میں کاروبار اور تجارت کا ایک بڑا حصہ افغانستان کے ساتھ تجارت پر منحصر ہے گذشتہ ہفتے طالبان کے ایک تکنیکی اقتصادی وفد نے کابل میں ایران کے خصوصی نمائندے حسن کاظمی قومی کے ساتھ مل کر ایران کے جنوب میں چابہار کی بندرگاہ میں ایک سہولت کی تعمیر کا آغاز کیا تھا حسن کاظمی کے مطابق طالبان کی حکومت چابہار میں 35 ملین ڈالر کی سرمایہ کاری کرے گی ایران کے آزاد تجارتی، صنعتی اور خصوصی اقتصادی زونز کی سپریم کونسل کے صدر اور سیکرٹری کے مشیر حجت اللہ عبدالمالکی کے ساتھ ملاقات میں اس وفد نے چابہار آزاد تجارتی زون میں طالبان کی نمائندگی کے قیام کا مطالبہ کیا.

طالبان کے صنعت و تجارت کے وزیر نورالدین عزیزی کا کہنا ہے کہ ایران کے ساتھ تجارت کے حجم کو 10 ارب ڈالر سالانہ تک بڑھانا چاہتے ہیں ‘ پاکستان میں سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری اور پاک افغان چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے سابق صدر فیض محمد فیضی نے بتایا کہ افغانستان میں طالبان کے آنے سے پہلے جب تجارت عروج پر تھی اور بینکنگ سیکٹر فعال تھا تو اس وقت روزانہ ایک ہزار سے زیادہ کنٹینر دونوں ممالک کے درمیان درآمدات اور برآمدات کے لیے سرحد عبور کرتے تھے تاہم پاکستان کی جانب سے بعض اشیا پر ٹیکسز اور سرحد کی بندش کی وجہ سے افغان تاجر دلبرداشتہ ہوئے ہیں اور اس لیے وہ متبادل ذرائع اختیار کر رہے ہیں جس میں افغانستان کے صوبہ ہرات کے ساتھ ایران کی سرحد سے بھی تجارت کی جا رہی ہے.

افغان تاجر سرحد کی بندش کی وجہ سے بڑی تعداد میں پھلوں، سبزیوں اور مرغی کے کنٹینر کھڑے کھڑے خراب ہو نے پر پریشان ہیں ایسے اقدامات سے دونوں ملکوں کے تاجروں کو نقصان پہنچتا ہے ماہرین کا کہنا ہے پاکستان کو افغانستان کے ساتھ تجارت کو بہتر کرنا ہو گا کیونکہ پاکستان افغانستان سے 20 فیصد درآمد کرتا ہے اور 80 فیصد برآمد کرتا ہے اس لیے افغانستان کو یا توموسٹ فیورٹ نیشن کا درجہ دینا ہو گا یا ایسے ملک کا درجہ دینا ہو گا جس کے ساتھ تجارت ترجیحی بنیادوں پر ہوتی ہے تاکہ دونوں ممالک اس سے فائدہ حاصل کر سکیں.

دوسری جانب ایران نے اگرچہ طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنے سے گریز کیا تاہم دونوں ملک بہت سارے منصوبوں پر مل کر کام کررہے ہیں جن میں ایران کے راستے ایک تجارتی روٹ بنانا بھی شامل ہے چابہار سپیشل اکنامک زون کے اندر تعمیراتی منصوبے میں 25 منزلہ بلند و بالا رہائشی کمپلیکس کی تعمیر بھی شامل ہے. نظریاتی اعتبار سے ایران اور طالبان کو دوانتہائیں سمجھاجاتا رہا ہے تاہم اب دونوں ملک تیزی سے باہمی تعاون کو بڑھا رہے ہیں افغانستان کی طالبان حکومت کو ایران سے تیل لینے میں بھی کوئی مسلہ نہیں ہوگا کیونکہ ان پر امریکی یا عالمی پابندیوں کا اطلاق نہیں ہوتاماہرین کا کہنا ہے کہ دونوں ملکوں کے مابین تجارت سے پاکستان کو زیادہ فائدہ ہے اگر دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں بہتری آتی تو پاکستانی کمپنیاں افغانستان کی تعمیر نو اور بڑے منصوبوں میں مناسب شیئرحاصل کرسکتی تھیں مگر اسلام آباد کی امریکا کے زیراثرپالیسیوں کی وجہ سے پاکستان اس موقع سے فائدہ نہیں اٹھا سکتا ماہرین کے مطابق پاکستان افغانستان کے راستے وسط ایشیائی ریاستوں تک اپنی تجارت کو فروغ دے سکتا ہے اس لیے پاکستانی حکومت کو اپنی پالیسی کو ویویو کرنا چاہیے کیونکہ توانائی کے بحران سے بچنے کے لیے پاکستان کے پاس سب سے سستا آپشن وسط ایشیائی ریاستوں سے گیس اور تیل کا حصول ہے.

گیس اور تیل کے علاوہ وسط ایشیائی ریاستوں میں پاکستان کی ٹیکسٹائل اور چمڑے کی مصنوعات کی بڑی مانگ ہے اس روٹ کے ذریعے پاکستان چند سالوں میں معاشی بحران سے نکل سکتا ہے جبکہ افغانستان اور وسط ایشیائی ریاستوں سے تازہ اور خشک پھل‘گوشت کے لیے جانوروں کی درآمد اور گندم سمیت دیگر اشیاءافغانستان کے راستے درآمدکرسکتا ہے واضح رہے کہ چین افغانستان کے ساتھ مل کر ”اولڈ سلک روٹ“پر کام کررہا ہے جس کا مقصد وسط ایشیائی ریاستوں سے ہوتے ہوئے یورپی منڈیوں تک رسائی حاصل کرنا ہے تاہم پاکستان کی جانب سے عدم دلچسپی کی بنیاد پر بیجنگ کی جانب سے اس پر بات چیت نہیں کی گئی .

ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سی پیک منصوبے میں ”واخان“کوریڈور کے ذریعے افغانستان سے وسط ایشیائی ریاستوں تک جو منصوبہ زیرالتواءہے ممکنہ طور پر وہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات خراب ہونے کی وجہ سے بند ہوسکتا ہے دوسری جانب طالبان حکومت ایک بڑے زرعی منصوبے پر کام کررہی ہے جو 2025تک مکمل ہونے کا امکان ہے اس منصوبے کی تکمیل سے افغانستان نہ صرف خوراک میں خود کفیل بلکہ زرعی اجناس برآمدکرنے کے بھی قابل ہوجائے گا .

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں