تقریباً ایک سال قبل آن لائن لوڈو کھیلتے ہوئے بھارتی شہری کی محبت میں گرفتار ہوکر بھارت جانے اور پھر وہاں گرفتاری کے بعد چند قبل پاکستان واپس بھیجی جانے والی اقرا جیوانی کے والدین ان کی غیر موجودگی میں کس کرب اور غم سے گزرے یہ الگ کہانی ہے۔
امریکی خبر رساں ادارے ”وائس آف امریکا“ سے گفتگو میں اقرا جیوانی کے والد محمد سہیل جیوانی نے بتایا کہ ’ہمارے لیے یہی بہت ہے کہ ہماری بچی صحیح سلامت بھارت سے اپنے وطن اور گھر پہنچ گئی۔ ہم جانتے ہیں کہ پانچ ماہ ہم نے اس کے بغیر کس اذیت اور کرب میں گزارے۔ ہم دونوں میاں بیوی کا حال ایسا تھا جیسے ہمارے گھر کوئی مر گیا ہو اور ہمیں صبر نہ آ رہا ہو۔‘
سہیل جیوانی حید آباد سے تعلق رکھنے والی سیکنڈ ایئر کی طالبہ اقرا جیوانی سمیت چار بچوں کے والد ہیں۔
19 ستمبر 2022 ایک معمول کا دن تھا، اقرا کالج جانے کے لیے گھر سے نکلی البتہ اس کے بعد ان کا کچھ پتا نہ چلا، وہ ہوا میں دھویں کی طرح غائب ہوگئی۔
پانچ ماہ بعد گزشتہ ہفتے 19 فروری 2023 کو اقرا اتوار کی شام اچانک واہگہ بارڈر کے راستے پاکستان پہنچی، جہاں انہیں بھارت کی بارڈر سیکیورٹی فورس (بی ایس ایف) نے پاکستان رینجرز کے حوالے کیا۔
اقرا کے اہلِ خانہ ان کی واپسی کے لیے بے صبری سے منتظر تھے۔ معمول کی کارروائی کے بعد اقرا کا بالآخر ان کے حوالے کردیا گیا۔
وائس آف امریکا سے خصوصی گفتگو کرتے ہوئے اقرا کے والد سہیل جیوانی کا کہنا تھا کہ بیٹی کو سامنے دیکھ کر میں نے اور میری بیوی نے خدا کا شکر ادا کیا۔ ہم اس کو دیکھ کر ایسے ہی خوش تھے، جیسے اس نے آج جنم لیا ہو۔ اقرا بھی ہم سے گلے لگ کر بہت روئی اور معافیاں مانگی کہ اس سے یہ غلطی سر زد ہوئی کہ وہ یوں چلی گئی۔
سہیل کے مطابق ان کے چار بچوں میں اقرا دوسرے نمبر پر ہے۔ ’تین بھائیوں کی اکلوتی بہن ہونے کی وجہ سے بیٹی ہمارے لیے کیا اہمیت رکھتی ہے، اس کا اندازہ کوئی نہیں لگا سکتا۔‘
سہیل کہتے ہیں، ’یہ سب کیسے اور کیوں ہوا؟ نہیں جانتے، نہ ہی اپنی بیٹی سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ اس پر وہاں کیا گزری۔‘
ان کے بقول یہ واقعہ ان کے ساتھ ساتھ ان کی بیٹی کے لیے بھی ڈراؤنے خواب سے کم نہیں تھا۔
گمشدگی کے بعد خاندان پر کیا گزری؟
اقراء کے والد سہیل جیوانی کے مطابق بیٹی کی گمشدگی پر انہوں نے کالج، یہاں تک کہ ان کی سہیلیوں سے معلوم کیا، جس کے بعد گمشدگی کی رپورٹ درج کرائی گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ اقرا کی گمشدگی کی رات تک ایف آئی اے سے یہ اطلاع مل گئی کہ ان کی بیٹی کراچی سے دبئی روانہ ہوئی ہے۔ یہ خبر سنتے ہی ان کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔
ان کے بقول ایف آئی آر کٹ چکی تھی لیکن ایسا لگ رہا تھا جیسے سب ختم ہوگیا ہے۔
بیٹی کے پاس پاسپورٹ پہلے سے اس لیے تھا کیوں کہ گزشتہ برس ان کا خاندان عمرے کی ادائیگی کے لیے سعودی عرب کا سفر کر چکا تھا۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ’ہمیں اب کچھ خبر نہیں تھی کہ آگے کیا ہوگا۔ اسی ہفتے میں اپنی بیٹی کی بازیابی اور اس تک رسائی کے لیے صدر مملکت عارف علوی سے ملاقات کی۔ سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ کاروباری حلقے سے رابطہ کیا۔
انہوں نے بتایا کہ ان کا تعلق میمن برادری سے ہے۔ سب نے ان کا ساتھ دیا۔
’اقرا جانے سے قبل 10 روز سے چپ چپ تھی، یہ ہم نے ضرور نوٹ کیا کہ وہ خاموش رہنے لگی ہے لیکن ہمیں اندازہ نہیں تھا کہ اس کے ذہن میں کیا چل رہا ہے۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ میری بیٹی کو اس لڑکے نے ہپناٹائز کر دیا تھا۔ ورنہ وہ کیسے اتنا بڑا قدم اٹھاسکتی تھی؟‘
سہیل جیوانی کے مطابق ہر گزرتے دن کے ساتھ ان کی ہمت جواب دیتی جا رہی تھی۔ لڑکی کی ماں کا رو رو کر برا حال تھا۔
’گھر والے کھانا پینا، ہنسنا بولنا بھول چکے تھے۔ ابھی یہ پریشانی چل رہی تھی کہ 13روز بعد اقرا نے بذریعہ فون رابطہ کیا۔ وہ بہت رو رہی تھی اس نے بتایا کہ وہ بھارت میں ہے اور ملائم سنگھ اور اس کے گھر والوں نے اسے کمرے میں قید کر رکھا ہے اس سے غلطی ہوگئی ہے۔ وہ یہاں سے نکلنا چاہتی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس رابطے کے بعد انہوں نے اپنی کوششیں تیز کر دیں۔ بیٹی کی گمشدگی سے وطن واپسی تک دفتر خارجہ مسلسل رابطے میں رہا اور ان ہی کی کوششوں سے بیٹی واپس آسکی۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کی جانب سے بتایا گیا تھا کہ وہ بھارت کے دفترِ خارجہ سے رابطے میں تھے اور ان کی بیٹی جب گرفتار ہوئی تو اسے جیل میں نہیں رکھا گیا بلکہ کسی محفوظ مقام یعنی دارلامان کی طرح کی جگہ رکھا گیا، جہاں وہ ایک ماہ رہی اور پھر پاکستان واپس آئی۔
اقرا بھارت کیسے پہنچ گئی؟
اقرا کی دوستی بھارت میں مقیم ایک لڑکے ملائم سنگھ سے آن لائن گیم لڈو کے ذریعے ہوئی تھی۔ اقرا نے ملائم سنگھ سے ملنے کا صرف ارادہ کیا اور 19 ستمبر 2022 کو حیدر آباد سے کراچی ایئر پورٹ پہنچی جہاں سے وہ متحدہ عرب امارات (یو اے ای) کے شہر دبئی کے لیے روانہ ہوئی۔
دبئی پہنچ کر اسں نے نیپال کے شہر کھٹمنڈو کی فلائٹ لی، جہاں بنگلورو کے رہائشی 26 سالہ ملائم سنگھ اس کا پہلے سے منتظر تھا۔
پاکستان سے بھارت کے لیے ویزا لینا انتہائی مشکل کام ہے، اس لئے ان دونوں نے اتنا طویل طریقہ اختیار کیا۔
بعض اطلاعات کے مطابق ملائم سنگھ نے اقرا کو سفری اخراجات کے ساتھ ٹکٹ بھیج دیا تھا جب کہ بھارتی میڈیا کے مطابق اقرا نے اپنا کچھ زیور فروخت کیا تھا۔
اقرا کے کھٹمنڈو پہنچتے ہی ملائم نے وہاں ان سے شادی کی اور اس کے بعد وہ بھارت کے شہر بنگلورو چلے گئے، جس کے بعد وہ ملائم سنگھ کی بیوی کی حیثیت سےان کے گھر مقیم رہی۔
البتہ ملائم کے پڑوسیوں کو اچانک سے ایک اجنبی لڑکی کی موجودگی اور اس کے ہندو نہ ہونے کا شبہ ہوا۔
رپورٹس کے مطابق ایک روز انہوں نے اقرا ملائم سنگھ کے گھر میں نماز پڑھتے ہوئے دیکھ لیا تھا جس کے بعد پولیس کو اطلاع کر دی۔
پولیس نے گھر پر چھاپہ مار کر ملائم سنگھ اور اقرا کو پاکستانی پاسپورٹ سمیت گرفتار کرلیا۔
اقرا کے واپس آنے کے بعد کیا بدلا؟
اقرا کے والد سہیل کا کہنا ہے کہ ’جب سے میری بیٹی گھر لوٹی ہے، میڈیا کے لوگ اس تک رسائی چاہتے ہیں، جو ممکن نہیں۔ ہم اسے بار بار یہ بات کر کے مزید اذیت سے دوچار کرنا نہیں چاہتے۔‘
اس سوال پر کہ کیا انہوں نے اپنی بیٹی کا کوئی رشتہ طے کیا تھا یا کوئی زبردستی مسلط کی تھی؟
سہیل جیوانی کا کہنا تھا کہ اس واقعے سے قبل ان کی بیٹی کے دو سے تین رشتے آئے تھے، جس کا انہوں نے انکار کر دیا تھا کیوں کہ ان کی بیٹی پڑھ رہی تھی۔
’ہم نے کبھی اپنی بچی پر کوئی دباؤ نہیں ڈالا، ہم ایک مشترکہ خاندانی نظام کا حصہ ہیں، جہاں ہم اپنے بچوں کے ساتھ بہت قریبی تعلق رکھتے ہیں۔ اس کی واپسی کے بعد ہم نے نہ صرف خوشی منائی بلکہ جو منتیں مان رکھی تھیں، وہ سب ماں نے پوری کی ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ دو روز قبل بھارت سے انہیں ملائم سنگھ کے بھائی کی کال آئی تھی، جس نے کہا کہ آپ کی بیٹی ہماری بہو ہے، اس کے پیچھے ان کے بھائی نے اپنا مذہب تبدیل کیا بس نام نہیں بدلا۔ جیسے ہی ان کا بھائی جیل سے رہا ہو کر آئے گا، وہ اپنی بہو کو لینے پاکستان آئیں گے، جس پر انہوں نے سختی سے انکار میں جواب دیا۔
سہیل کے مطابق انہوں نے ملائم سنگھ کے بھائی کو جواب دیا کہ ’ہم ایسی کسی جعلی شادی کو نہیں مانتے۔ ہمارا اور ہماری بیٹی کا آپ کے خاندان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس لیے آپ ہم سے کوئی رابطہ نہ رکھیں۔‘
ان کے مطابق اقرا ابھی بھی ڈری ہوئی ہے یہ سب اس کے لیے بھی اتنا ہی کربناک تھا جتنا ان کے لیے۔
’لیکن اب ہم مطمئن ہیں، شاید ہم نے کوئی نیکی کی ہوگی جو ہماری بچی ایک ایسے ملک سے باحفاظت لوٹ آئی جس کے ساتھ ہمارے سرحدی تنازعات کبھی حل ہی نہیں ہوئے۔ اس پر میری بیٹی کا واپس آجانا کسی معجزے سے کم نہیں میں، جتنا شکر ادا کروں وہ کم ہے۔‘