واشنگٹن امریکی خفیہ اداروں کو کئی دن قبل شواہد مل گئے تھے کہ روس کے نیم فوجی دستے کے سربراہ یوگینی پریگوزین فوج کے خلاف بغاوت کی تیاری کر رہے ہیں۔
مؤقر امریکی اخبارات واشنگٹن پوسٹ، نیویارک ٹائمز اور عالمی خبر رساں ایجنسی کے مطابق وائٹ ہاؤس، پینٹاگون اور کیپٹل ہل میں روسی فوجی دستے کی بغاوت سے ایک دن قبل باقاعدہ بریفنگز کا اہتمام کیا گیا تھا جن میں جوہری قوت کے حامل روس میں ہونے والی ممکنہ صورت حال کے متعلق صلاح و مشورہ اور تبادلہ خیال کیا گیا۔
میڈیا کے مطابق امریکی خفیہ اداروں نے جون کے وسط میں ایسی علامات کو محسوس کر لیا تھا کہ ویگنر اور اس کے سربراہ یوگینی پریگوزین روسی فوج کے خلاف قدم اٹھانے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ایک اور مؤقر ادارے دی ٹائمز کے مطابق رواں ہفتے کے وسط تک سامنے آنے والی معلومات ٹھوس اور تشویشناک تھیں جس کی وجہ سے بریفنگز میں کافی ہلچل پیدا ہوئی۔
ویگنر نام کے نیم فوجی دستے نے جمعہ کو ماسکو کی جانب پیش قدمی کی جب اس کے سربراہ یوگینی نے فوجی دستے کے ہمراہ یوکرین میں اپنے کیمپس چھوڑ دیے اور ماسکو کی جانب روانگی سے قبل جنوبی شہر روستوف آن ڈان کی فوجی کمان اپنے ہاتھ میں لے لی تھی۔
واضح رہے کہ ویگنر کے سربراہ اور بیلاروس کے صدر کے درمیان گزشتہ روز اسی حوالے سے کامیاب مذاکرات ہوئے جس میں طے کیا گیا کہ فوجی دستے یوکرین واپس جائیں گے جب کہ یوگینی پریگوزین پڑوسی ملک بیلاروس منتقل ہو جائیں گے۔
یاد رہے کہ کریملن کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ان کے خلاف کوئی قانونی کارروائی نہیں کی جائے گی اور نہ ہی ان کے گروپ میں شامل فوجیوں کے خلاف کوئی ایکشن لیا جائے گا۔
امریکی اخبار کے مطابق امریکہ کے خفیہ اداروں نے امریکی حکام کو پہلے ہی اطلاع دی تھی کہ ویگنر دستہ فوجی ایکشن کی تیاری کر رہا ہے اور اسی ضمن میں ایک جوہری ملک میں فوج کی آپس میں لڑائی کے بعد بننے والی ممکنہ صورت حال پر گہری تشویش ظاہر کی گئی تھی۔
امریکی خفیہ اداروں کو یقین ہے کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن بھی فوجی دستے کے اندر چلنے والی صورت حال سے باخبر تھے کیونکہ ویگنر کے سربراہ یوگینی صدر پیوٹن کے بہت قریبی اور اتحادی رہے ہیں اس لیے ان کو ایک دو دن قبل معلوم ہو گیا تھا کہ وہ کیا کرنے جا رہے ہیں؟
واضح رہے کہ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے گزشتہ روز سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ بغاوت غداری ہے اور اس کی سخت سزا ملے گی۔