انتخابی نتائج: ڈرامہ کرنے کی ضرورت کیا تھی، جی ایچ کیو میں بیٹھ کر اعلان کرتے ہم سرتسلیم خم کرلیتے، اختر مینگل ان قوتوں کو بتانا چاہتا ہوں ہماری دو سیٹیں لینا چاہیں تو لے جائیں، کم سے کم ہمارے سر سے یہ درد ختم ہو، اختر مینگل

آج بلوچستان مکمل طور پر بند رہا ہے، کوئٹہ، خضدار، کیچ سمیت جتنے بلوچستان کے جتنے بھی علاقے ہیں ان میں ہڑتال، احتجاج اور دھرنے جاری ہیں، اور تمام سیاسی جماعتیں بشمول پی ٹی آئی، جے یو آئی (ف)، بلوچستان عوامی پارٹی، نیشنل پارٹی سب ہی سراپا احتجاج ہیں، کیونکہ بلوچستان میں بھی الیکشن متنازع ہو گئے ہیں۔

بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی) کے سربراہ اختر مینگل تین نشستوں سے میدان میں اترے تھے لیکن صرف این اے 256 خضدار سے جیت سکے ہیں، این اے 261 سے اختر مینگل 9 فروری تک الیکشن جیت رہے تھے لیکن حتمی نتیجے میں وہ یہ سیٹ جے یو آئی کے عبدالغفور حیدری سے تقریباً چار ہزار ووٹوں سے ہار گئے۔

اس مرتبہ قومی اسمبلی میں بی این پی کی صرف ایک نشست ہے جبکہ پچھلے انتخابات میں بی این پی کی چار نشستیں تھیں۔

اختر مینگل نے کہا کہ ملک میں اس بار عجیب الیکشن ہوئے ہیں، دیگر جماعتوں کی سیٹیں بڑھ رہی ہیں ہماری کم ہو رہی ہیں، ہمیں این اے 264 کوئٹہ سے امید تھی کہ وہاں سے جیت پائیں گے، ہمارے پاس اسکے تمام فارم 45 موجود ہیں ، لیکن وہاں سے جس امیدوار کو جتوایا گیا اس کے کسی پولنگ اسٹیشن میں 10 سے زیادہ ووٹ نہیں تھے۔

انہوں نے کہا کہ الیکشن کے دوران بلوچستان کے عوام پر خوف طاری کیا گیا کہ وہ پولنگ میں نہ آئیں، جس کی وجہ من پسند امیدواروں کو منتخب کرانا تھا۔

اخترمینگل نے کہا کہ ’جی ایچ کیو میں بیٹھ کر اناؤنس (اعلان) کرتے ہم سر خم تسلیم کر لیتے، ان کو انکار نہیں کرتے، یہ ڈرامہ کرنے کی ضرورت کیا تھی کہ لوگوں کو بھی سردیوں میں خوار کریں، کینڈیڈیٹس کو بھی خوفزدہ کریں، اخراجات بھی کریں، ایک فرمان وہاں سے جاری کردیتے کہ بلوچستان سے جو 16 جنرل نشستیں ہیں یا 51 کے قریب آپ کی کو پروونشل (صوبائی)اسمبلی کی نشستیں ہیں وہ اعلان کردیتے ہم مان لیتے، ہم کونسا انکار کرتے‘۔

انہوں نے کہا کہ ’ہم آر اواز سے ڈی آر اوز سے بات کرتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ آپ سمجھدار ہیں آپ سمجھ جائیں‘۔

ان کا کہنا تھا کہ کوئٹہ ایک سیٹ جہاں اکثریت ہزارہ کمیونٹی کی ہو وہاں سے بھی اگر بلوچ جیت کر آجائے تو اس سے بڑی ظلم و زیادتی کیا ہوسکتی ہے؟

اختر مینگل کا کہنا تھا کہ ان قوتوں کو بتانا چاہتا ہوں ہماری دو سیٹیں ایک صوبائی اور ایک قومی کی، اگر وہ لینا چاہیں تو لے جائیں کم سے کم ہمارے سر سے یہ درد ختم ہو، ہم بھی سمجھ لیں گے کہ اس ملک کی پارلیمنٹ میں ہمارے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے، یہ احسان جو انہوں نے کیا ہے وہ واپس لے لیں، کم سے کم یہ تو ثابت ہوگا کہ بلوچستان سے نہ تو کوئی قوم پرست آسکتا ہے، نہ مذہبی جماعتیں جیت سکتی ہیں، ’جیت سکتی ہیں تو وہ جماعتیں جیت سکتی ہیں جنہوں نے سودے بازی میں پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان کے ساتھ زیادتیوں کا ازالہ ہونا چاہیے، جس کی بھی اکثریت اس کو حکومت بنانے کا موقع دینا چاہیے۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں