پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ اگر صدر ایک بار پھر آئین شکنی کرنا چاہتے ہیں تو وہ اجلاس سمن نہ کریں، آئین سے کھیل کھیلا جارہا ہے، صدر کو چاہیے تھا کہ اس مسئلے کو طریقے سے حل کرتے۔ اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج کل سب سے زیادہ قومی اسمبلی اجلاس کے حوالے سے بات چیت ہورہی ہے، اسمبلی اجلاس کی طلبی سے متعلق آئین بہت واضح ہے، صدر اگر سمری پر دستخط نہ کریں تو مطلب ہے کہ وہ نہیں چاہتے اجلاس ہو، اسی لیے صدر نے اعتراض لگا کر سمری واپس بھیج دی، لاہور میں بھی آزاد امیدواروں نے اعتراض لگایا کہ ہاؤس مکمل نہیں، جب کہ سپیکر نے جو ممبر نوٹیفائی کیے اور جو موجود ہیں ان سے حلف لینا ہے۔
مسلم لیگ ن کے رہنماء نے کہا کہ سینیٹ اور قومی اسمبلی سیشن کو صدر سمن نہیں کرتے تو سپیکر کا بھی اختیار ہے، 29 فروری کو قومی اسمبلی کا اجلاس ہونا ہی ہونا ہے کیوں کہ آئین کے تحت الیکشن کے 21 دن کے اندر اجلاس ہونا ہے، صدر کے ان اقدامات پر ہوسکتا ہے کوئی ان کی تشریح ہو، سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے انتخاب کے لئے پانچ روز کا وقت ہوتا ہے، ہوسکتا ہے صدر سمن جاری کریں تو ان کا اچھا تاثر ہوگا، وفاقی حکومت نے صدر کو ان کے اعتراضات پر جواب بھجوا دیا ہے، آئین خود کہتا ہے اگر کوئی چیز آئین میں ہونا تھی نہیں ہوئی تو وہ قابل قبول ہے۔
اس موقع پر ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ بلوچستان اسمبلی کا کل اجلاس ہونے جارہا ہے، آج اس حوالے سے ہماری میٹنگ ہوئی ہے، چند دن پہلے پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان جو طے ہوا تھا یہ میٹنگ اس کا تسلسل ہے، ہم چاہتے ہیں جے یو آئی سمیت سب کو ساتھ لے کر چلیں، یہ مسائل اتنے گہرے ہیں کہ ہم سب مل کر کوشش کریں گے تو ان مسائل سے نکل سکیں گے، ہمارے قائد نواز شریف نے کہا تھا سب مل کر ملک کو مسائل سے نکالیں۔
سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا کہ بلوچستان کے وزیر اعلیٰ اور گورنر بلوچستان کا فیصلہ کل تک ہوجائے گا، کل اتفاق رائے سے دونوں عہدوں کے لئے ناموں کا اعلان کردیا جائے گا، ہم مل کر قومی اسمبلی میں سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کا انتخاب کریں گے یہ معاہدہ ہوچکا ہے، بلوچستان اسمبلی میں کل حلف برداری ہے، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن مل کر وزیراعلیٰ کا فیصلہ کرے گی۔