’اگر ”وہ“ چاہیں تو عمران کے خلاف کارروائی ہوسکتی ہے‘ اب ایسا نہیں ہوگا کہ وزیراعظم ہاتھ باندھ کر عدالت کے سامنے سرنگوں کھڑے ہوں، اور نااہل ہوکر باہر آجائیں، وزیر داخلہ

وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کا کہنا ہے کہ کسی کے اوپر قتل سے بڑا الزام کیا ہوسکتا ہے، پہلے جب وزیرآباد کا واقعہ ہوا تو اس (عمران خان) نے وزیراعظم کو مورد الزام ٹھہرایا، میرا نام لیا اور ساتھ ہی فوج کے ایک آفیسر کا نام لیا، جس کے بعد پھر اب دوبارہ ان کا نام لیا ہے۔

نجی ٹی وی کے پروگرام میں صحافی طلعت حسین کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے رانا ثناء اللہ نے کہا کہ اس کے پاس کسی کے خلاف بھی کوئی ثبوت نہیں ہے، زبانی تحریری، آڈیو ، ویڈیو، کسی قسم کی کوئی شہادت اس کے پاس نہیں ہے۔

فوج کی جانب سے ان کے بیانات پر عمران خان کے خلاف کیا کارروائی ہوسکتی ہے؟ اس کے جواب میں وزیر داخلہ نے کہا کہ قانون اجازت دیتا ہے کہ آرمی ایکٹ کے مطابق کارروائی ہو، اگر وہ چاہیں تو کارروائی ہوسکتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’سیاست دانوں کی حد تک یا پروائیویٹ لوگوں کی حد تک تو ان چیزوں کو بعض اوقات اتنا سیرئیس (سنجیدہ) لیا بھی نہیں جاتا، اس کے بعد پھر اگر مقدمہ ہو تو پاکستان پینل کوڈ کے تحت معاملات اتنے زیادہ سیرئیس نہیں ہوتے۔ ہاں لیکن یہ ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت اور آرمی ایکٹ کے تحت یہ چیز اگر انہوں نے چاہا، میں یہ نہیں کہتا کہ انہوں نے کوئی ایسا فیصلہ کیا ہے یا ایسا ہوسکتا ہے، لیکن قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ویسے تو شہباز گل نے جو باتیں کی تھیں وہ بھی اس دائرے میں لائی جاسکتی تھیں، جو بات سینیٹر اعظم سواتی صاحب نے کی تھی اس کو بھی اس ضمرے میں لایا جاسکتا تھا۔

انہوں نے کہا کہ یہ پراپیگنڈا کرتے ہیں تشدد کا، میں نے خود ان کو متعدد بار کہا کہ آپ درخواست تو دیں، اپنا میڈیکل کرائیں، ہمارے اوپر جو تشدد ہوتے رہے ہیں ان کے میڈیکل آج بھی موجود ہیں۔

رانا ثناء اللہ نے کہا کہ انہوں نے ایک نیا تشدد ایجاد کرلیا ہے کہ کپڑے اتار کے ایک طرف رکھ دئے پھر اٹھا کر پہن لئے اور کہہ دیا کہ ہمارے اوپر تشدد ہوا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ عسکری اداروں اور افسران کے خلاف بیانات کے بارے میں ہم سیاسی طور پر پورا جواب دے رہے ہیں، جب یہ ایک حساس ادارے کے خلاف پراپیگنڈا کریں گے تو زیادہ دیر اس کو برداشت نہیں کیا جاسکے گا۔

جب طلعت حسین نے کہا کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد معاملہ تو عدالت میں ہی آنا ہے اور عدالتوں کا مزاج آپ کے سامنے ہے۔

تو اس کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’جو اسپیسیفک اسپیشل لاز ہیں اس کے تحت پھر کئی جگہوں پہ ، میں خیر اس بات کا حوالہ نہیں دینا چاہتا، تو پھر وہاں پر جو ہے بعض جگہوں پر یہ آپشن ایکسٹروڈ (خارج) ہوجاتی ہے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ میں حکومت کی طرف سے کہتا ہوں کہ یہ جہاں سے کہیں، جس سے کہیں، ہم اس بات کی انکوائری کرانے کو تیار ہیں کہ ہم نے اس کے خلاف کوئی قتل کی سازش کرائی ہے۔

سوال کیا گیا کہ 14 مئی کی جو تاریخ ہے اس کے اوپر انتخابات ظاہر ہے اب ہوتے نظر نہیں آرہے، آپ کو لگتا ہے کہ اس کی سزا میں کنٹیمپٹ کے نوٹسز جاری ہوں گے اور وزیراعظم اور کابینہ کو اس کی سزا بھگتی پڑے گی؟

جواب میں رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ’اگر اس طرف صورت حال گئی تو پھر صرف اس بات پہ اکتفا نہیں ہوگا کہ پرائم منسٹر کو یا کابینہ کو نااہلی کا یا کنٹیمپٹ کا نوٹس ملے، اور وہ جا کے وہاں پہ سرنگوں ہاتھ جوڑ کے کھڑے ہوجائیں اور نااہل ہو کے باہر آجائیں، میرا خایل ہے کہ شاید یہ صورت حال اس طرح سے اس مرتبہ نہ ہوسکے‘۔

ان کا کہنا تھا کہ میں یہ ضرور کہہ دوں کہ اب ایسے نہیں ہوگا، اس طرح سے اب کوئی وزیراعظم نااہل ہوکر گھر نہیں جائے گا۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں