اہلیہ سخت مزاج ہے لیکن بچی کو مار پیٹ نہیں کی، سول جج عاصم حفیظ بچی کے والدین پیسوں کی لالچ اور کسی ہدایت پر الزامات لگارہے ہیں، عاصم حفیظ

گھریلو ملازمہ رضوانہ پر مبینہ تشدد کرنے والی خاتون کے شوہر سول جج عاصم حفیظ کا کہنا ہے کہ جب بچی گھر گئی تو بالکل ٹھیک تھی، میری اہلیہ سخت مزاج ہے لیکن اس نے مارپیٹ نہیں کی، بچی کے والدین پیسوں کی لالچ یا کسی کی ہدایت پر الزامات لگار ہے ہیں۔

گھریلو ملازمہ 14 سالہ رضوانہ پر مبینہ بہیمانہ تشدد کرنے والی خاتون کے شوہر سول جج عاصم حفیظ نے نجی نشریاتی ادارے سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ میری اہلیہ نے گھر کے کاموں کے لئے اپنی دوست کو ملازمہ کا کہا تھا، جس پر رضوانہ کو ہمارے گھر لایا گیا۔

عاصم حفیظ نے بتایا کہ بچی کے والدین اس کی عمر 14 سال بتارہے ہیں، لیکن جب وہ ہمارے گھر آئے تو بتایا تھا کہ رضوانہ کی عمر 16 سے 17 سال ہے، اور ضلعی قوانین کے تحت یہ عمر ملازمت کے قابل تھی، جس پر بچی کو گھر میں ملازمت پر رکھا، اور اس کے گھر والوں کو 10 ہزار یا اس سے زیادہ رقم بھجواتے تھے۔

سول جج کا کہنا تھا کہ میں بچی سے کوئی چیز لانے کا کم کہتا تھا، اور بات بھی کم ہی کرتا تھا، وہ ملازمت کے دوران متعدد بار اپنے والدین سے ملنے گئی، تاہم وہ گھر جانے سے ڈرتی تھی، مجھے اہلیہ نے بتایا تھا کہ بچی کہتی ہے کہ وہ گھر گئی تو اسے والدین ماریں گے، کیوں کہ تنخواہ بند ہوگی اور انہیں اس کا خرچ برداشت کرنا پڑے گا۔

سول جج نے بتایا کہ بچی کا تعلق غریب خاندان سے تھا، وہ گندی رہتی تھی اور چہرے اور سر پر خارش کرتی تھی، جس کی وجہ سے اس کے سر میں زخم بن گئے تھے، 8 جولائی کو اسے انفیکشن ہوا تو میں نے اس کا علاج شروع کرایا۔

عاصم حفیظ کا کہنا تھا کہ میری اہلیہ کا مسئلہ ہے کہ وہ سخت مزاج ہیں، اور کبھی سخت بول دیتی ہیں، لیکن بچی کے حوالے سے اہلیہ نے بتایا ہے کہ انہوں نے کبھی مار پیٹ نہیں کی۔

سول جج نے بتایا کہ رضوانہ جس دن اپنے گھر واپس جارہی تھی اس کی حالت ایسی نہیں تھی جو میڈیا پر دکھائی گئی، اس کے جاتے ہوئے میں ناشتہ کررہا تھا، وہ میرے پاس سے گزری اس نے سامان بھی اٹھا رکھا تھا، اس کے بازو یا چلنے میں کوئی تکلیف نہیں تھی۔

عاصم حفیظ کا کہنا تھا کہ کہا جارہا ہے کہ ہم بچی کو بھوکا رکھتے تھے، بچی کے والدین پیسوں کی لالچ یا کسی کے کہنے پر الزامات لگا رہے ہیں، انہیں اس حوالے سے کوئی ہدایات دے رہا ہے، میرے حوالے سے فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں جا کر پوچھ لیں، جہاں مجھے ملنے والا خاکروب بھی کھائے پیے بغیر واپس نہیں جاتا، اور میرے گھر میں کوئی بھوکا رہے تو مجھے مر جانا چاہئے۔

سول جج نے کہا کہ میڈیا ٹرائل کی وجہ سے میں فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی سے اپنی پوسٹنگ کھو دی ہے، آپ جا کر معلوم کرسکتے ہیں کہ میرے جانے پر لوگ افسردہ اور اور ان کی آنکھیں نم ہیں، میرے حلقہ احباب سے پوچھا جائے کہ میں کس شخصیت کا مالک ہوں۔

عاصم حفیظ کا کہنا تھا کہ میں اور میرا پورا خاندان سفاکانہ میڈیا ٹرائل کا شکار ہیں، ہمارا ذہنی سکون اور عزت سب برباد ہوچکا ہے، سول سوسائٹی اور میڈیا کو سمجھنا چاہیے کہ جج اور ان کے اہلِ خانہ بھی انسان ہیں، وحشیانہ میڈیا ٹرائل سے بہتر ہے کہ ہمیں ذبح کردیا جائے۔

سول جج نے مزید کہا کہ لوگ سمجھتے ہیں ہم بااثر اور طاقتور ہیں، لیکن ہم عام مزدور کی طرح ایسے حالات میں اپنا دفاع بھی نہیں کر پا رہے، ملازمت کے ضابطہ اخلاق کے تحت میڈیا سے بات کرنے کی اجازت نہیں جو ان کی بدقسمتی ہے، رضوانہ کے جسم پر چوٹوں کا فیصلہ وقت کرے گا، لیکن اگر ہم بے قصور ثابت بھی ہوگئے تو ہمارے خاندان پر لگنے والے وحشیانہ زخموں کا ازالہ کون کرے گا، ہمارے بچے مستقبل میں معاشرے کا سامنا کیسے کریں گے۔

واضح رہے کہ جنرل اسپتال لاہور میں مالکن کے تشدد کی شکار گھریلو ملازمہ رضوانہ کا 7 روز سےعلاج جاری ہے، بچی کی حالت مسلسل کبھی بگڑ اورکبھی سنبھل رہی ہے، اسپتال انتظامیہ کے مطابق رضوانہ کو مسلسل سانس میں دشواری کا سامنا ہے، ان کی برونکوسکوپی دوبارہ کی گئی ہے، اس کے آئندہ 48 گھنٹے اہم ہیں انہیں وینٹیلیٹر پر منتقل کیا جاسکتا ہے۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں