ایران میں صحت عامہ کا شعبہ اس وقت اتنے زیادہ دباؤ میں ہے کہ ایرانی میڈیکل کونسل نے واضح طور پر تنبیہ کر دی ہے کہ ملک میں ڈاکٹروں کی کمی کے باعث پیدا ہونے والی صورت حال نازک ہوتی جا رہی ہے۔
اس کونسل نے حکام کو خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اس مسئلے کی سنجیدگی کو سمجھیں اور خاص طور پر ملکی سیاستدان اس مشکل کو حل کرنے کے لیے عملی اقدامات کریں تاکہ حالات مزید خراب نہ ہوں۔
ایرانی حکومت ‘ظالم’ ہے: نوبل امن انعام یافتہ نرگس محمدی
ایرانی حکومت ‘ظالم’ ہے: نوبل امن انعام یافتہ نرگس محمدیی میڈیکل کونسل کے سربراہ محمد رئیس زادہ نے ہفتے کے روز خبردار کرتے ہوئے کہا، ”ایرانی ڈاکٹروں میں ترک وطن کر کے بیرون ملک چلے جانے کا رجحان صرف مایوس کن ہی نہیں بلکہ اس وجہ سے ہمیں مستقبل قریب میں ڈاکٹروں کی شدید کمی کے تدارک کے لیے واضح اور حقیقت پسندانہ حل نکالنا پڑیں گے۔
رئیس زادہ کے مطابق ڈاکٹروں کی کمیابی کی وجہ سے صحت عامہ کے ملکی نظام میں بچوں کی سرجری کے شعبے میں بہت برے اثرات پہلے ہی سے دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ ان کے مطابق، ”اس سلسلے میں اگر جلد اور نتیجہ خیز اقدامات نہ کیے گیے، تو غیر ملکی ڈاکٹروں اور سرجنوں کو ملک میں لانا پڑ سکتا ہے۔‘‘
محمد رئیس زادہ کے الفاظ میں، ”اگر ایسا کرنا پڑ گیا، تو اس عمل کے منفی اثرات ایران میں صحت عامہ کے پورے نطام کو متاثر کریں گے۔
سرکاری نیوز ایجنسی ارنا کے مطابق سن 2021ء میں موجودہ ملکی صدر ابراہیم رئیسی کے اقتدار میں آنے کے بعد ملکی طبی ماہرین میں ترک وطن کا رجحان بہت زیادہ ہو گیا ہے، جس کی ایک بڑی وجہ ایران میں اقتصادی بحرانی حالات بھی ہیں۔
ایرانی عوام کے ایک بڑے حصے کو صدر ابراہیم رئیسی اور ان کی بہت قدامت پسند حکومت سے شکایت یہ ہے کہ وہ مغربی دنیا سے متعلق اپنی قطعی غیر لچک دار پالیسیوں کے ساتھ ملک کو اس حد تک افراتفری سے دوچار کر رہے ہیں کہ بحرانی نوعیت کے اقتصادی اور مالیاتی حالات ختم ہونے ہی میں نہیں آتے۔
یہی وجہ ہے کہ بہت سےایرانی باشندوں کو اب اندرون ملک اپنا اور اپنے اہل خانہ کا کوئی مستقبل دکھائی نہیں دیتا۔ ان کی بڑی تعداد ترک وطن کر کے مغربی ممالک میں آباد ہونا چاہتی ہے۔
اس دوران بہت سے ایرانی ڈاکٹر اور نرسیں، جنہیں اپنے لیے بیرون ملک بہتر روزگار کے مواقع نظر آئے، پہلے ہی ملک چھوڑ کر جا چکے ہیں۔ اب تو بہت سے ایرانی باشندے ماضی کے مقابلے میں کسی ڈاکٹر کے پاس یا کسی ہسپتال میں کم ہی جاتے ہیں۔ انہیں یہ امید کم ہی ہوتی ہے کہ کسی مقامی کلینک یا ہسپتال میں وہ کسی ماہر معالج سے مشورہ کر سکیں گے۔