ایم کیو ایم، پی ٹی آئی سے مذاکرات کیلئے تیار، بجٹ حکومتی عہدیداروں اور امیروں کی سہولتکاری قرار دے دیا مراد علی شاہ اور مرتضیٰ وہاب کراچی کے براہ راست دشمن ہیں، خالد مقبول صدیقی

متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان کے سربراہ اور وفاقی وزیر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی کا بجٹ 25-2024 میں کراچی کیلئے رکھے گئے پیکیج کے حوالے سے کہنا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے تحت وسائل صوبوں کو منتقل کئے جانے تھے اور صوبوں کو یہ وسائل لوگوں کی دہلیز پر پہنچانے تھے، لیکن کیونکہ ملک میں جاگیردارانہ جمہوریت ہے تو جاگیردار آئین کی ان شقوں کو تو تسلیم کرتے ہیں جو ان کے حق میں ہوں لیکن ان شقوں کو نہیں مانتے جن میں کوئی اپنا حق مانگے۔

آج نیوز کے پروگرا ”روبرو“ میں خصوصی گفتگو کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ مجھے کراچی پیکیج کی بات کرتے ہوئے بڑی شرم آتی ہے، ہم اپنا لوٹا ہوا مال مانگ رہے ہیں، شہر کے لوگوں کو آپ اتنا تو دے دیں کہ انہیں پانی کا ایک قطرہ تو ملے۔

ان کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی سے ہم نے کراچی کیلئے 25 ارب روپے مانگے تھے، انہوں نے اعلان کیا کہ 1100 ارب روپے دیں گے، انہوں نے نہ وہ دیا نہ یہ دیا۔

خالد مقبول صدیقی نے وزیر خزانہ کے کے فور منصوبے کے حوالے سے اعلان پر کہا کہ اس منصوبے کے تحت کراچی والوں کا پانی اگر ملا بھی تو بہت جلدی ہونے پر بھی 2026 کے آخر میں ملے گا، لیکن تھوڑے دن بعد حکومت کہہ دے گی کہ اتنا بڑا پروجیکٹ قابل عمل نہیں ہے، پانی نہیں دے سکتے تو پھر بم مار دیں اس شہر پر۔

ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں جاگیرداروں اور حکومتوں نے جان بوجھ کر لسانیات کی بنیاد پر سرحدیں بنائی ہیں، وہاں اگر پانی پر ہنگامہ جنم لے گیا لینے کے دینے پڑ جائیں گے، جو گائیں آپ کو دودھ دے کر پال رہی ہے اگر اسے گھاس نہیں ڈال سکتے تو سینگیں بھی نہ لڑائیں۔

خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ وزیرخزانہ نے بجٹ تقریر میں جو سکھر، میرپورخاص اور دیگر سندھ کے شہروں کا نام لیا وہ سب ہم نے ڈلوایا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سندھ میں جو بھی وزیراعلیٰ آتا ہے وہ براہ راست اس شہر کا دشمن ہوتا ہے جو اس کو پال رہا ہے، جنت جیسے کراچی کو انہوں نے 50 سال میں جہنم بنا دیا ہے، وزیراعلی مراد علی شاہ اور مئیر مرتضیٰ وہاب کراچی کے براہ راست دشمن ہیں، سندھ میں 97 فیصد طبقہ کما کر دے رہا ہے اور 3 فیصد ایسا جو ہے صرف یہ کمائی خرچ کر رہا ہے، یہ شہر خیرات پر چل رہا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایم کیو ایم کا سربراہ پانی کا بل بھی دے رہا ہے اور الگ سے ٹینکر بھی خرید رہا ہے، وہ سالڈ ویسٹ مینجمنٹ کو ٹیکس بھی دے رہا ہے اور الگ سے کچرا اٹھانے والا بھی رکھا ہوا ہے۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ بجٹ میں کیا آپ نے ارب پتی جاگیردار پر ٹیکس لگایا ہے؟ سبزی اگاکر جو ارب پتی بن رہا ہے اس پر آپ ٹیکس نہ لگائیں لیکن جو سبزی ٹھیلے پر بیچ رہا ہے اس پر آپ ٹیکس لگا دیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تنخواہ دار طبقے پر لگایا گیا ٹیکس بھتہ ہے، آپ سب پر ٹیکس لگائیں، ہم کہتے ہیں کہ آپ ڈائریکٹ ٹیکس بڑھائیں اور ان ڈائریکٹ ٹیکس ختم کریں، تنخواہ دار طقبہ ڈائریکٹ ٹیکس بھی دے گا اور ان ڈائریکٹ ٹیکس بھی دے گا، وہ ٹیکس دے کر چیزیں بھی مہنگی خریدے گا اور تنخواہ سے بھی ٹیکس کٹے گا۔ آپ نے سارا بوجھ تنخواہ دار طبقے پر ڈال دیا، یہ بجٹ تو امیر طبقے کیلئے بنایا گیا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ پیپلز پارٹی کس بات پر ناراض تھی اور اس نے بجٹ اجلاس میں شرکت نہیں کی، جاگیرداروں پر ٹیکس تو لگایا ہی نہیں گیا، سارا ٹیکس تو شہروں پر لگا ہے، انہوں نے کیوں نہیں بتایا کہ بجٹ اجلاس میں کیوں نہیں آئے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس بجٹ کے بعد ڈیڑھ سے پونے تین کروڑ لوگ خط غربت سے نیچے چلے جائیں گے۔

ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ہم پی ٹی آئی سے مذاکرات کیلئے تیار ہیں، لیکن پی ٹی آئی جب مذاکرات کیلئے آئے گی تو ہم پہلا سوال ہی یہ کریں گے کہ آپ نے چور، ڈاکو اور دہشتگردوں سے مذاکرات نہ کرنے کا اعلان کیا تھا تو کیا اب انہوں نے پیشے بدل لئے ہیں؟

انہوں نے کہا کہ پی ٹی آئی پاکستان جس کی ملکیت کو تسلیم کرتی ہے اس سے مذاکرات کرلے۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں