ہم ایسے اقدامات نہیں دیکھنا چاہتے جو کشیدگی میں اضافہ کا باعث بنیں‘اسرائیل کے حق دفاع کو تسلیم کرتے ہیں لیکن علاقائی کشیدگی کو کم کرنا چاہتے ہیں.امریکی محکمہ دفاع
بائیڈن انتظامیہ نے اسرائیل کو17 اعشاریہ 9ارب ڈالر کی فوجی امداد فراہم کی ہے جبکہ4اعشاریہ 86 ارب ڈالر یمن کے حوثیوں کے خلاف لڑائی پر خرچ کیے تاہم تازہ ترین رپورٹ گذشتہ ہفتے پینٹاگون کے شرقِ اوسط میں اضافی فوجیوں اور اثاثہ جات کی تعیناتی کے اعلان اور ساتھ ہی لبنان پر ایک اور اسرائیلی حملے کے آغاز سے پہلے مکمل ہو گئی تھی اور توقع ہے کہ ان پر امریکہ کے اربوں نہیں تو کروڑوں کے اخراجات ہوں گے.
گذشتہ ہفتے امریکی کوششوں کو بھی شامل نہیں کیا گیا جس نے اب تک کے سب سے بڑے ایرانی حملے کو ناکام بنانے میں اسرائیل کی مدد کی جس میں تقریباً 200 میزائل داغے گئے چیدہ چیدہ اندازے بتاتے ہیں کہ اس حملے کے اخراجات 100 ملین ڈالر ہیں جس میں امریکہ نے تقریباً 12 سٹینڈرڈ میزائل استعمال کیے ہیں. امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق یہ رپورٹ براو¿ن یونیورسٹی نے شائع کی ہے گذشتہ سال کے دوران فراہم کردہ بعض ہتھیاروں میں توپ خانے کے گولے 2ہزار پاﺅنڈ وزنی مورچہ شکن بم اور درستگی سے حملے کرنے والے بم شامل تھے امریکی امداد کا ایک اور بڑا حصہ میزائل کے دفاع کے لیے اسرائیل کے آئرن ڈوم اور ڈیوڈز سلِنگ کو دوبارہ بھرنے پر صرف ہوا.
رپورٹ میں کہا گیا ہے اسرائیل کے لئے امریکی فوجی امداد کے بارے میں حکومت کی اطلاعات یوکرین کی فوجی امداد سے بہت متصادم ہیں جہاں ڈالر کی رقم ترسیل کے ذرائع اور سپلائی کیے گئے مخصوص نظام کی اطلاع حکومت کے فراہم کردہ حقائق نامہ میں باقاعدہ بنیاد پر معمول کے مطابق دی جاتی ہے. دوسری جانب امریکی فوج نے اعلان کیا کہ لبنان کی حزب اللہ اور اسرائیل کے درمیان لڑائی میں شدت آنے کے باعث وہ گذشتہ ہفتے شرقِ اوسط میں مزید فوجی بھیج رہی تھی پینٹاگون کے پریس سیکرٹری میجر جنرل پیٹ رائڈر نے عرب نشریاتی ادارے کو بتایا کہ مشرقِ وسطی میں بڑھتی ہوئی کشیدگی اور بہت زیادہ احتیاط کے پیش نظر ہم خطے میں پہلے سے موجود افواج کی تعداد میں اضافے کے لیے اضافی امریکی فوجی اہلکاروں کی ایک مختصر تعداد کو آگے بھیج رہے ہیں جنرل رائڈر نے آپریشنل سکیورٹی وجوہات کی بنا پر مزید تفصیلات فراہم نہیں کیں امریکی مرکزی کمان (سینٹ کام) نے کہاکہ تین اضافی طیارہ سکواڈرن – ایف-15 ای، ایف-16 اور اے-10 – شرقِ اوسط پہنچ رہے ہیں جن میں سے ایک سکواڈرن پہلے ہی پہنچ چکا ہے .
امریکہ نے پہلے ہی حالیہ مہینوں میں اپنے فوجیوں کی تعداد میں اضافہ کر دیا تھا جس سے کل تعداد 40,000 ہو گئی تھی یہ واضح نہیں ہے کہ مزید کتنے افراد کو تعینات کیا جا رہا ہے یمن میں حوثیوں کے انسداد کے لیے امریکہ کے زیر قیادت میں مہم کے بارے میں اس تحقیق میں امریکی بحریہ کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ جون تک تقریباً ایک بلین ڈالر مالیت کا اسلحہ استعمال کیا گیا تھا تحقیق میں اندازہ لگایا گیا ہے کہ حوثیوں کے خلاف جنگ جاری رکھنے کے لیے پینٹاگون کو اگلے چند مہینوں میں مزید دو بلین ڈالر کی ہنگامی امداد کی ضرورت ہو سکتی ہے.
امریکہ نے بحیرہ احمر میں متعدد طیارہ بردار بحری جنگی گروپوں کو بھی تعینات کیا ہے رپورٹ کے مطابق ایک مکمل بھرے ہوئے اور فعال طیارہ بردار جنگی گروپ کے اخراجات تقریباً نو ملین ڈالر یومیہ ہیں اس طرح مجموعی طور پر خطے میں امریکی سرگرمیوں پر پہلے ہی کم از کم چار اعشاریہ آٹھ چھے بلین ڈالر خرچ ہو چکے ہیں اور حوثیوں اور دیگر علاقائی ممالک کے ساتھ وسیع تنازعہ حل ہونے تک اس میں تیزی سے اضافہ ہونے کا امکان ہے.
گذشتہ ہفتے میزائل حملے کے بعد تہران کے خلاف تل ابیب کے ردعمل کی خطرے کے جلو میں امریکی محکمہ دفاع نے اعلان کیا کہ امریکہ اسرائیل کے ساتھ مل کر ایسے ردعمل سے بچنے کے لیے کام کر رہا ہے جس سے جنگ کے پھیلنے کا خطرہ نہ ہو امریکی محکمہ دفاع کے ترجمان پیٹ رائڈر نے پریس بریفنگ کے دوران کہا کہ ہم وسیع تر علاقائی تنازعے سے بچنے کے لیے مسلسل کوششیں کر رہے ہیں انہوں نے کہا کہ ہم ایرانی حملے کا جواب دینے کے اسرائیل کے حق کو تسلیم کرتے ہیں لیکن ہم علاقائی کشیدگی کو کم کرنا چاہتے ہیں.
انہوں نے کہاکہ ہم ایسے اقدامات نہیں دیکھنا چاہتے جو کشیدگی میں اضافہ یا غلط حساب کتاب کا باعث بنیںامریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اپنے اسرائیلی ہم منصب یوآو گیلنٹ کے ساتھ ملاقات کے دوران اس بات پر زور دیا کہ خطے میں ایران اور اس کے پراکسیوں کو روکنے کے لیے واشنگٹن پر عزم ہے انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ امریکہ کے پاس خطے میں اپنے فوجیوں اور ملازمین کا دفاع کرنے‘ مدد فراہم کرنے اور مزید کشیدگی کو روکنے کی بڑی صلاحیتیں ہیں انہوں نے کہا کہ امریکہ اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کی حمایت کرتا ہے.
یہ بیانات گذشتہ روز تہران اور تل ابیب کے درمیان اسرائیلی ردعمل اور ایرانی جوابی ردعمل کے حوالے سے دھمکیوں کے تبادلے کے بعد سامنے آئے ہیں یہ اس وقت بھی سامنے آیا جب اسرائیلی حکام نے پہلے ایرانی اہداف کی متوقع فہرست کا حوالہ دیا تھا جو بڑے اسرائیلی ردعمل کے دائرہ کار میں آسکتی ہے انہوں نے وضاحت کی کہ اسرائیل ایران میں اسٹریٹجک مقامات پر حملہ کر سکتا ہے جن میں سے ایک ایرانی تیل یا حتیٰ کہ جوہری تنصیبات بھی ہو سکتی ہیں انہوں نے اس بات کی بھی نشاندہی کی کہ اسرائیلی ردعمل میں جنگی طیاروں کے فضائی حملے اور اس کے ساتھ ساتھ جولائی میں تہران میں حماس کے رہنما اسماعیل ہنیہ کو ہلاک کرنے کے طرز کے خفیہ آپریشن بھی شامل ہو سکتے ہیں.