حکومت نے بجلی کے بلوں پر کئی طرح کے بھاری ٹیکسز متعارف کرائے ہیں، جس کے نتیجے میں لوگوں نے بجلی کا استعمال کم کر دیا، لیکن اس کے باوجود اگست میں عوام کو بھاری بل موصول ہوئے اور اب وہ سڑکوں پر نکل کر احتجاج کر رہے ہیں۔
لوگوں کی ایک بڑی تعداد کا کہنا ہے کہ وہ بجلی کے بل جمع نہیں کرائیں گے۔
یہ صورتحال اتنی پریشان کن ہے کہ نگراں وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی کو بھی اس پر ردعمل دینا پڑا۔
مرتضیٰ سولنگی کی بقول بجلی کے بل نہ دینا مسئلے کا حل نہیں۔
ظاہر ہے اگر لوگ بجلی کے بل ادا کرنے سے انکار کر دیں گے تو بجلی کی ترسیل کا پورا نظام ٹھپ ہو جائے گا اور پاکستان اندھیروں میں ڈوب جائے گا۔
لیکن کئی طرح کے سرچارجز اور ٹیکسز سے لدے بل ادا کرنا بھی عوام کے لیے آسان نہیں، اس وقت بجلی کی قیمت سے زیادہ ٹیکسز بل میں شامل ہیں۔
نگراں وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر شمشاد اختر کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کی وجہ سے حکومت ٹیکسوں میں ردوبدل نہیں کر سکتی کیونکہ اس کے نتیجے میں محصولات میں کمی آجائے گی۔
ڈاکٹر شمشاد اختر نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کو بتایا کہ پاکستان ٹیکس محصولات کا 70 فیصد حصہ قرضوں کی ادائیگی میں دے رہا ہے۔
ظاہر ہے ان حالات میں اگر حکومت ٹیکسز میں کمی لاتی ہے تو محصولات میں کمی ہو جائے گی جو قومی خزانے کا نقصان ہے اور ایسا کرنا آئی ایم ایف سے معاہدے کی خلاف ورزی ہوگی۔
لیکن ایک متبادل نقطہ نظر یہ ہے کہ اگر حکومت بجلی کے بلوں پر ٹیکسز کم کر دے تو قومی خزانے کو نقصان کے بجائے فائدہ ہو سکتا ہے۔
اس نقطے کو سمجھنے کے لیے ہمیں کیپیسٹی چارجز کے معاملے کو سمجھنا ہوگا جو پورے مسئلے کی جڑ ہے۔
بجلی بنانے والی کمپنیوں سے معاہدوں کے تحت حکومت ایک مقررہ مقدار میں بجلی ان سے خریدنے کی پابند ہے۔ اگر حکومت بجلی نہ بھی خریدے تو بھی ایک مخصوص رقم کیپیسٹی چارجز کی مد میں بجلی کمپنیوں کو ادا کی جاتی ہے۔
یہ وہ پیسے ہیں جو حکومت بجلی نہ خریدنے کی مد میں ادا کرتی ہے۔
دسمبر 2022 کے ایک تخمینے کے مطابق ہر نہ خریدے گئے یونٹ کے بدلے میں حکومت آٹھ روپے بجلی پیدا کرنے والی کمپنیوں کو ادا کر رہی ہے۔
جس مہینے ملک میں بجلی کی کھپت کم ہو جائے اس مہینے کیپیسٹی چارجز کی رقم بڑھ جاتی ہے۔
دوسرے لفظوں میں صارفین کی جانب سے بجلی کا استعمال کم کرنا حکومت کے لیے مسائل بڑھا دیتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ سولر پینل سے تیار ہونے والی بجلی کو حکومت اپنے لیے نقصان سمجھ رہی ہے۔
بجلی کے بلوں پر بھاری ٹیکس ہونے کے بعد عوام نے استعمال کم کر دیا ہے اور اس کے نتیجے میں کیپیسٹی چارجز بڑھتے جا رہے ہیں۔
لمز یونیورسٹی کے سابق استاد عمار خان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت بجلی کے بلوں پر ٹیکسز کم کر دے تو طلب بڑھ جائے گی، اس کے نتیجے میں کیپیسٹی چارجز کم ہو جائیں گے اور حکومت کو بچت ہوگی۔
It may come as a surprise because its basic math, but decreasing taxes on electricity consumption would increase demand in kWh, which will actually reduce capacity payments on a per kWh basis
Increasing and sustaining high taxes only decreases consumption, and makes things worse
— Ammar Khan (@rogueonomist) August 30, 2023
عمار خان کا کہنا ہے کہ بھاری ٹیکسوں کی وجہ سے کھپت کم ہوتی ہے جس کے نتیجے میں مسائل بڑھ رہے ہیں۔
لیکن انہوں نے کہا کہ حکام اس سادہ ریاضی کو سمجھنے کے لیے تیار نہیں۔