بنگلہ دیش: شیخ حسینہ کے متعین کردہ سفیروں کی واپسی کا حکم

بنگلہ دیش کی مقامی میڈیا کی اطلاعات کے مطابق نوبل امن انعام یافتہ محمد یونس کی قیادت والی عبوری حکومت نے ایک اہم انتظامی رد و بدل کے تحت مختلف ممالک میں تعینات اپنے سات سفیروں کو واپس بلانے کا حکم دیا ہے۔

بنگلہ دیش میں مبینہ مظالم کی تحقیقات اقوام متحدہ کی ایک ٹیم کرے گی

شیخ حسینہ کی سابقہ ​​عوامی لیگ حکومت کی جانب سے امریکہ، روس، سعودی عرب، جاپان، جرمنی، متحدہ عرب امارات اور مالدیپ میں تعینات کیے گئے سات سفیروں کو فوری طور پر وطن واپس آنے کی ہدایت کی گئی ہے۔

بھارت کا یوم آزادی: بنگلہ دیش میں ہندوؤں کے تحفظ کی فکر

بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے واشنگٹن میں تعینات سفیر محمد عمران، ماسکو میں تعینات سفیر قمر الحسن، ریاض میں سفیر جاوید پٹواری، ٹوکیو میں سفیر شہاب الدین احمد، برلن میں سفیر مشرف حسین بھویاں، ابوظہبی میں تعینات سفیر ابو ظفر، ابوظہبی میں تعینات ہائی کمشنر عزیرالاسلام اور مالے میں تعینات ہائی کمشنر ابوالکلام آزاد کو واپس بلا لیا ہے۔

بنگلہ دیش: شیخ حسینہ کی اپیل کے بعد ممکنہ تصادم کا خدشہ

وزارت خارجہ کی طرف سے ان سفیروں کو بھیجے گئے الگ الگ نوٹسز میں انہیں ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی موجودہ ذمہ داریوں سے دستبردار ہو جائیں اور فوری طور پر بنگلہ دیشی دارالحکومت ڈھاکہ میں واقع ہیڈ کوارٹر واپس آ جائیں۔

بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر مبینہ حملوں کے سبب سرحد پر کشیدگی

واضح رہے کہ بنگلہ دیش میں آٹھ اگست کو عبوری حکومت کے قیام کے بعد سے بڑے انتظامی رد و بدل دیکھے گئے ہیں۔

بھارت کی شیخ حسینہ کے لیے لابنگ

اس دوران یہ خبر شہ سرخیوں میں ہے کہ کس طرح بھارت نے مبینہ طور پر بنگلہ دیش کی سابق وزیر اعظم شیخ حسینہ کے تئیں نرم رویہ اپنانے کے لیے امریکہ سے لابنگ کی تھی۔

بنگلہ دیش میں عبوری حکومت معاشی اصلاحات کی متحمل ہو سکے گی؟

معروف امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ نے بھارتی اور امریکی حکام کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ نئی دہلی کے حکام نے اپنے امریکی ہم منصبوں سے کہا تھا کہ وہ شیخ حسینہ پر زیادہ دباؤ ڈالنا بند کر دیں۔

بنگلہ دیش: چیف جسٹس اور مرکزی بینک کے گورنر اپنے عہدوں سے مستعفی

واضح رہے کہ امریکی سفارت کاروں نے جنوری 2024 میں ہونے والے عام انتخابات سے قبل اپنے ہزاروں حریفوں اور ناقدین کو جیلوں میں بھرنے کے لیے شیخ حسینہ پر کھل کر نکتہ چینی کی تھی۔

امریکی انتظامیہ نے اس وقت بنگلہ دیشی پولیس کی اس یونٹ پر پابندیاں بھی عائد کی تھیں، جس پر عوامی لیگ کے رہنماؤں کی ایما پر ماورائے عدالت اغوا اور قتل کا الزام لگایا گیا تھا۔

امریکہ نے اس وقت بعض ایسے بنگلہ دیشی حکام پر ویزا کی پابندیاں بھی عائد کرنے کی دھمکی دی تھی، جن پر جمہوریت کو نقصان پہنچانے اور انسانی حقوق کی خلاف ورزی کرنے کا الزام تھا۔

واشنگٹن پوسٹ نے کیا لکھا ہے؟

اخبار نے لکھا ہے کہ اعلیٰ سطح کی میٹنگوں کے دوران بھارتی حکام نے امریکہ پر زور دیا تھا کہ وہ بنگلہ دیش کے حوالے سے جمہوریت نواز بیانات میں نرمی سے کام لیں۔

بھارت کا استدلال یہ تھا کہ “اگر اپوزیشن کھلے عام انتخابات کے ذریعے اقتدار حاصل کر لیتا ہے، تو اس سے بنگلہ دیش اسلام پسند گروپوں کا گڑھ بن جائے گا اور اس طرح بھارت کی قومی سلامتی کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔”

بنگلہ دیشی قوم مذہبی اتحاد قائم رکھے، محمد یونس کی اپیل

نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر واشنگٹن پوسٹ کے ساتھ بات چیت میں ایک بھارتی اہلکار نے کہا، “آپ تو جمہوریت کی سطح پر اس سے رجوع کرتے ہیں، لیکن ہمارے لیے مسائل بہت زیادہ سنگین اور وجودی ہیں۔

بنگلہ دیش میں انتشار پھیلانے والوں کو کچل دیا جائے گا، م‍‍حمد یونس

ان کا مزید کہنا تھا، “امریکیوں کے ساتھ بہت سی بات چیت کے دوران ہم نے یہی کہا کہ “یہ ہمارے لیے بنیادی تشویش کی بات ہے۔ اور آپ ہمیں اس وقت تک اسٹریٹجک پارٹنر کے طور پر نہیں لے سکتے جب تک کہ ہم میں اسٹریٹجک امور پر کسی قسم کا اتفاق نہ ہو۔”

اخبار لکھتا ہے کہ اسی کے بعد بائیڈن انتظامیہ نے شیخ حسینہ کے خلاف اپنی تنقید کو نرم کیا اور ان کی حکومت کے خلاف مزید پابندیوں کی دھمکیوں کو روک بھی دیا۔

تاہم اس سے بہت سے بنگلہ دیشیوں کو مایوسی ہوئی۔

ادھر امریکی حکام کا کہنا تھا کہ یہ نپا تلا اقدام تھا جس کا تعلق بھارتی لابنگ سے تھا۔ تاہم اب نئی دہلی اور واشنگٹن میں پالیسی ساز اس بات کا از سر نو جائزہ لینے پر مجبور ہیں کہ آیا انہوں نے کہیں بنگلہ دیش کی صورتحال کو غلط طریقے سے تو نہیں سنبھالا۔

واشنگٹن پوسٹ نے ایک امریکی اہلکار سے بھی بات چیت کی، جنہوں نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر کہا کہ کئی بار “آپ کو اپنے شراکت داروں کے ساتھ اس طریقے سے بھی کام کرنا پڑتا ہے، جو امریکی عوام کی توقعات کے مطابق نہیں ہوتا۔”

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں