سٹیٹ بنک کا کردار ایک ریگولیٹر کا ہے، وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ قرض نادہندگان کا ریکارڈ رکھنے کا پابند نہیں، سٹیٹ بنک ریکارڈ متعلقہ بنکوں سے حاصل کرکے فراہم کر سکتا ہے۔ پاکستان انفارمیشن کمیشن کے فیصلے کا متن
پاکستان انفارمیشن کمیشن نے بڑے قرض نادہندگان کی معلومات پبلک کرنے کا حکم دے دیا۔ جنگ اخبار کی رپورٹ کے مطابق پاکستان انفارمیشن کمیشن کی جانب سے 1000 بڑے قرض نادہندگان کی فہرست افشاء کرنے کے فیصلے کے خلاف سٹیٹ بنک کی آخری نظر ثانی کی درخواست مسترد کرتے ہوئے مذکورہ معلومات 5 ستمبر تک پبلک کرنے کا حکم دیا ہے۔
اس حوالے سے جاری فیصلے میں کہا گیا ہے کہ سٹیٹ بنک کی طرف سے ڈپٹی گورنر ڈاکٹر عنایت حسین، ڈائریکٹر لاء رضا محسن قزلباش اور لاء افسر محمود نذیر رانا 1000 بڑے قرض نادہندگان کی فہرست افشاء کرنے کے حوالے سے 27 مئی کے کمیشن کے فیصل کےخلاف نظر ثانی اپیل دائر کرنے کے لئے پیش ہوئے۔ سٹیٹ بنک حکام نے کمیشن میں پیش کی جانے والی اپنی نظر ثانی کی اپیل میں کہا کہ ان کے پاس 1000 بڑے قرض نادہندگان کی فہرست موجود ہے لیکن وہ اس لیے اس کو شیئر نہیں کر سکتے کہ ان معلومات کو افشاء کرنے کے حوالے سے استثنیٰ حاصل ہے، بنکنگ کمپنیز آرڈنینس 1962ء کے سیکشن 13A، جو ’’وفاداری اور راز داری‘‘ کے بارے ہے، اس میں بتایا گیا ہے کہ ہر بنک اور مالیاتی ادارہ جب تک اسے قانون کے مطابق ضرورت نہ ہو اپنے صارف کی کوئی معلومات کسی سے شئیر نہیں کرے گا۔
انفارمیشن کمیشن نے اپنے فیصلے میں کہا کہ سٹیٹ بنک کا کردار ایک ریگولیٹر کا ہے وہ یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ قرض نادہندگان کا ریکارڈ اپنے پاس رکھنے کا پابند نہیں، سٹیٹ بنک یہ ریکارڈ متعلقہ بنکوں سے حاصل کرکے بھی فراہم کر سکتا ہے۔ حکومتی ادارے سٹیٹ بنک کو معلومات کی رسائی کے سامنے دیوار بننے کی بجائے ایک اچھے اور فعال اور چوکس ریگولیٹر کے طور پر اپنا کردار ادا کر نا چاہیئے۔ چیف انفارمیشن کمیشنر پاکستان شعیب صدیقی کا کہنا ہے کہ سٹیٹ بنک کو 5 ستمبر تک فیصلے پر عملدر آمد کے لئے مہلت دی گئی ہے، اگر حکم عدولی ہوگی تو سٹیٹ بنک حکام کے خلاف رائٹ ٹو ایکسس آف انفارمیشن ایکٹ 2017ء کے سیکشن 20 اور 22 کے تحت سخت کارروائی عمل میں لائی جاسکتی ہے۔