نتائج کے حصول اور اجراء میں مشینی عمل دخل (الیکشن مینیجمنٹ سسٹم) کے باوجود نتائج میں تاخیر نے تمام سیاسی جماعتیں سراپا احتجاج ہیں، جس پر نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے دعویٰ کیا ہے عام انتخابات 2024 کے نتائج 36 گھنٹوں میں مکمل کرلیے گئے، انہوں نے یہ بھی کہا کہ 2018 کے نتائج 66 گھنٹوں بعد آئے تھے۔
پاکستان میں الیکشن نتائج میں تاخیر کی وجہ ووٹوں کی گنتی اور پھر اس کے بعد کے مراحل ہیں، جیسے کہ فارم 45 کی تیاری اس کے بعد فارم 46، پھر اہم ترین فارم 47 آخر میں فارم 48 اور 49 کا اجراء۔
فارم 45: اسے عام طور پر ”گنتی کا نتیجہ“ کہا جاتا ہے۔ فارم 45 پولنگ اسٹیشن کے بارے میں ضروری معلومات پر مشتمل ہے، بشمول پولنگ اسٹیشن نمبر، حلقے کا نام، کُل رجسٹرڈ ووٹرز، ڈالے گئے کُل ووٹ، اور ہر امیدوار کو موصول ہونے والے ووٹوں کی تفصیل۔
امیدوار آزادانہ طور پر فارم 45 کے ذریعے اپنے حاصل کردہ ووٹوں کی تصدیق کر سکتے ہیں۔
فارم 46: یہ فارم پولنگ اسٹیشن پر موصول ہونے والے بیلٹ پیپرز کی تعداد، بیلٹ بکس سے جاری کیے گئے بیلٹ پیپرز کی تعداد، اور چیلنج شدہ، غلط اور منسوخ شدہ بیلٹ پیپرز کی تعداد کے بارے میں تفصیلات فراہم کرتا ہے۔ مزید برآں، فارم 46 میں ووٹنگ کے عمل میں کسی بھی بے ضابطگی کے بارے میں معلومات شامل ہوتی ہیں۔
فارم 47: فارم 47 میں مسترد شدہ ووٹوں کی تعداد اور انتخابی حلقے کے غیر سرکاری نتائج کے بارے میں ہر امیدوار کے ووٹوں کی تقسیم شامل ہے۔
فارم 48: انتخابی نتائج کی تیاری میں فارم 48 اہم ہے کیونکہ اس میں ایک مخصوص حلقے میں ہر امیدوار کے لیے ڈالے گئے ووٹوں کی کل تعداد شامل ہے۔
فارم 49: فارم 49، جسے گزیٹڈ فارم بھی کہا جاتا ہے، انتخابات کے حتمی اور سرکاری نتائج پر مشتمل ہے۔ اس میں امیدواروں کے نام، ان سے منسلک سیاسی جماعتیں اور انتخابی حلقے میں حاصل ہونے والے کل ووٹ شامل ہیں۔
بھارت میں اس جھنجھٹ سے بچنے کیلئے الیکٹرونک ووٹنگ مشین (ای وی ایم) متعارف کرائی گئی جو ایک بٹن دباتے ہی آپ کا ووٹ بھی کاسٹ کر دیتی ہے اور ساتھ ساتھ مخفی حساب بھی رکھتی ہے کہ کس کو کتنے ووٹ ملے۔
پوسٹل بیلٹ کی کاؤنٹنگ کو ملا کر اس پورے عمل میں مشکل سے دو دن لگتے ہیں۔
خیال رہے کہ پاکستان میں بھی ای وی ایم سے پولنگ کی تجویز پیش کی گئی تھی تاہم، اسے مسترد کردیا گیا۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے اپنے حالیہ بیان میں کہا تھا کہ ای وی ایم ہوتی تو میرا پیارا پاکستان اس بحران سے بچ جاتا۔
صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ای وی ایم میں کاغذی بیلٹ تھے جنہیں ہاتھ سے گنا جا سکتا تھا، لیکن اس میں ایک سادہ الیکٹرانک کیلکولیٹر اور کاؤنٹر بھی تھا، جو ہر ووٹ ڈالنے کے لئے دبائے جانے والے بٹن کو ساتھ ساتھ انہیں گن سکتا تھا، ہر امیدوار کا رزلٹ پول ختم ہونے کے پانچ منٹ کے اندر دستیاب ہوتا اور پرنٹ بھی ہو جاتا۔