یورپی یونین کے ساتھ ساتھ امریکہ اور کئی دیگر ممالک کی طرف سے دہشت گرد قرار دی گئی فلسطینی عسکریت پسند تنظیم حماس کے گزشتہ برس سات اکتوبر کو اسرائیل میں کیے گئے دہشت گردانہ حملے کے بعد سے ایران نواز لبنانی شیعہ ملیشیا حزب اللہ بھی تقریباﹰ ہر روز حماس کی حمایت میں اسرائیل پر لبنانی سرحد کے پار سے حملے کر رہی ہے۔
لیکن سوال یہ ہے کہ حزب اللہ ہے کیا
حزب اللہ کیا ہے؟
حزب اللہ لبنان کی ایک ایران نواز شیعہ تحریک ہے، جس کے عسکری بازو کو امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں قائم ولسن سینٹر نے 2022ء میں ”مشرق وسطیٰ کی سب سے بااثر غیر ریاستی عسکری تنظیم‘‘ قرار دیا تھا۔ یہ ایرانی حمایت یافتہ تنظیم ایک تحریک کے بجائے اب ایک ملیشیا کے طور پر زیادہ جانی جاتی ہے اور اس کے نام کا مطلب ‘خدا کی پارٹی‘ ہے۔
اس کی طاقت کا مرکز لبنان ہی ہے، جہاں اس کا قیام عمل میں آیا تھا۔
حزب اللہ صرف ایک عسکری تنظیم ہی نہیں بلکہ یہ لبنانی سیاست اور معاشرے میں بھی بہت زیادہ اثر و رسوخ کی حامل ہے۔
امریکہ میں قائم کونسل برائے خارجہ تعلقات (سی ایف آر) نامی ادارے نے 2022ء میں اس تنظیم کے متعلق کہا تھا، ”حزب اللہ کا سکیورٹی کے شعبے میں وسیع تر ڈھانچہ، اس کی سیاسی تنظیم اور سماجی خدمات کے شعبے میں اس کا پور انیٹ ورک، اس کی اس ساکھ کو تقویت دیتے ہیں کہ یہ ریاست کے اندر ایک ریاست ہے۔
حزب اللہ کو کئی ممالک نے باقاعدہ طور پر ایک دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے۔ امریکہ نے ایسا 1997ء میں کیا تھا اور جرمنی نے اس تحریک کو 2020ء میں باقاعدہ طور پر دہشت گرد قرار دے دیا تھا۔ جرمنی سے پہلے 2013ء میں یورپی یونین نے بھی حزب اللہ کے عسکری بازو کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دے دیا تھا۔ یورپی یونین کے اس فیصلے کو اس لیے متنازعہ سمجھا گیا تھا کہ حزب اللہ سیاسی طور پر 1992ء سے لبنان میں مسلسل مختلف حکومتوں کا حصہ رہی ہے۔
لبنان میں عوامی مقبولیت
لبنان میں حزب اللہ سماجی خدمات کا ایک بڑا اور ملک گیر نیٹ ورک بھی چلاتی ہے، جس کے تحت وہاں ہسپتال بھی کام کرتے ہیں، اسکول بھی اور کئی دیگر سماجی فلاحی ادارے بھی۔ اس کا لازمی طور پر مطلب یہ ہے کہ حزب اللہ کو لبنان میں عوامی سطح پر کافی زیادہ مقبولیت حاصل ہے۔
حزب اللہ لبنان کی شیعہ مسلم اقلیت میں بہت مقبول جماعت ہے اور یہ بات اس لیے بہت اہم ہے کہ لبنان میں شیعہ مسلمانوں کی مجموعی تعداد ملکی آبادی کا تقریباﹰ ایک تہائی بنتی ہے۔
2020ء میں کرائے گئے ایک ملک گیر جائزے میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ لبنانی شیعہ مسلمانوں کی تقریباﹰ 90 فیصد تعداد حزب اللہ کے بارے میں مثبت رائے کی حامل تھی۔
اس کے برعکس لبنانی آبادی میں شامل دیگر گروپوں کی رائے میں حزب اللہ کی اس لیے مذمت کی جانا چاہیے کہ اس نے مشرق وسطیٰ کی اس ریاست کو ہمیشہ ایک کے بعد دوسرے تنازعے کی طرف دھکیلا ہے۔
حزب اللہ قائم کیسے ہوئی؟
حزب اللہ کا قیام 1982ء میں عمل میں آیا تھا اور اس کی وجہ لبنان میں بہت زیادہ خونریزی اور انتشار کا سبب بننے والی وہ خانہ جنگی بنی تھی، جو 15 سال تک جاری رہی تھی۔ یہ خانہ جنگی 1975ء میں شروع ہوئی تھی اور اس کے بہت سے فریق لبنانی معاشرے کے ایسے حصے تھے، جو ایک دوسرے کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے تھے۔ ان جنگی فریقوں میں مسلمان بھی تھے، مسیحی بھی، بائیں بازو کے سیاسی گروپ بھی اور عرب قوم پسند گروہ بھی۔
تب اس خانہ جنگی میں شام اور کئی مسلح فلسطینی گروپ بھی شامل ہو گئے تھے۔
امریکہ میں قائم خارجہ تعلقات کی کونسل کے مطابق، ”تب لبنان میں جاری خانہ جنگی کے دوران اسرائیلی فورسز نے پہلے 1978ء میں جنوبی لبنان میں اور پھر وہیں پر 1982ء میں دوبارہ فوجی مداخلت کر دی تھی، تاکہ ان مسلح فلسطینی گروپوں کو وہاں سے نکالا جا سکے، جو وہاں قائم اپنے اڈوں سے اسرائیل پر حملے کرتے تھے۔
حزب اللہ کی طرف سے اسرائیلی فوجی ٹھکانوں پر حملے جاری
اسی دور میں شیعہ مسلمانوں کے ایک گروپ نے بھی اسرائیلی فورسز کے خلاف لڑنا شروع کر دیا تھا۔ وہ اپنی جدوجہد کو کئی مختلف مقاصد کی نظر سے دیکھ رہے تھے، مثلاﹰ عرب دنیا میں اپنے اثر و رسوخ کے لیے بھی۔ تب ایران نے اس نئی تشکیل شدہ ملیشیا کو عسکری تربیت اور مالی وسائل بھی مہیا کرنا شروع کر دیے تھے۔
ایران مشرق وسطیٰ میں اپنے حامی کئی عسکریت پسند گروپوں کی پشت پناہی کرتا ہے۔ ان میں لبنانی حزب اللہ کے ساتھ ساتھ فلسطینی علاقوں میں حماس اور عراق میں قائم کئی شیعہ ملیشیا گروہ بھی شامل ہیں۔ امریکی حکومت کے 2023ء میں لگائے گئے اندازوں کے مطابق ایران حزب اللہ کو سالانہ تقریباﹰ 700 ملین ڈالر کے برابر مالی وسائل مہیا کرتا ہے۔
حزب اللہ کی پالیسیاں
حزب اللہ نے 1985ء میں اپنا ایک منشور جاری کیا تھا، جس میں اس کے مقاصد کی ایک پوری فہرست شامل تھی۔
ان مقاصد میں لبنان سے اسے اپنی ‘نوآبادی‘ بنانے والی تمام مغربی اقوام کا مکمل انخلا، اسرائیلی ریاست کی تباہی اور ایران کے ساتھ مکمل یکجہتی اور وفاداری بھی شامل تھے۔
شروع میں تو حزب اللہ کے بنیادی سیاسی نظریات میں یہ بات بھی شامل تھی کہ لبنان میں ایک ایسا اسلامی مذہبی نظام حکومت قائم کیا جانا چاہیے، جس کا ماڈل ایران میں اسلامی انقلاب کے بعد کا ‘مذہبی قیادت کی حکومت‘ والا نظام ہو۔
حزب اللہ کے جنگجوؤں کی تعداد کتنی؟
حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کے مطابق اس شیعہ ملیشیا کے پاس ایک لاکھ سے زیادہ جنگجو ہیں۔ تاہم کئی سکیورٹی ماہرین کی رائے میں ان جنگجوؤں کی حقیقی تعداد ایک لاکھ سے کافی کم ہو سکتی ہے۔ اس ملیشیا کے پاس ہتھیاروں کا ایک خاصا بڑا ذخیرہ بھی ہے۔
لبنان میں ’کسی بھی کارروائی‘ کے لیے تیار ہیں، اسرائیل
واشنگٹن میں قائم مرکز برائے اسٹریٹیجک اور بین الاقوامی علوم کی ایک رپورٹ کے مطابق اس عسکری تنظیم کے پاس کافی زیادہ چھوٹے ہتھیار، آسانی سے ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیے جا سکنے والے اور زمین سے زمین تک مار کرنے والے میزائل بھی ہیں۔
ماہرین کا اندازہ ہے کہ حزب اللہ کے پاس مجموعی طور پر ایک لاکھ تیس ہزار تک یا اس سے بھی زیادہ راکٹ ہو سکتے ہیں۔ یہ راکٹ زیادہ تر ایرانی، چینی یا روسی ساختہ ہیں، جن کی بہت بڑی تعداد ایران یا شام کے راستے حزب اللہ تک پہنچی۔
حزب اللہ کی فعال جنگی طاقت کتنی مؤثر؟
حزب اللہ ملیشیا کو ایک مؤثر عسکری طاقت سمجھا جاتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کے جنگجوؤں کا کم از کم ایک حصہ تو مختلف جنگوں میں حصہ لے چکا ہے اور کافی تجربہ کار ہے۔
اپنے سرپرست ملک ایران کی طرح حزب اللہ شام میں بشار الاسد کی حکومت کی کلیدی حامی ہے اور اس کے بہت سے ارکان ‘اسلامک اسٹیٹ‘ یا داعش نامی دہشت گرد تنظیم کے خلاف بھی لڑ چکے ہیں۔
حزب اللہ کے جنگجو نہ صرف 2014ء کے بعد عراق میں ‘اسلامک اسٹیٹ‘ کے خلاف سرگرم رہے، بلکہ وہ عراق میں فعال کئی ایرانی حمایت یافتہ شیعہ ملیشیا گروپوں کے بھی اتحادی ہیں۔
2015ء میں جب یمن کی خانہ جنگی میں حوثی باغیوں نے سعودی عرب کی قیادت میں قائم کردہ اپنے مخالف جنگی دھڑے سے لڑنا شروع کیا، تو حزب اللہ نے حوثیوں کی عسکری تربیت کے لیے اپنے فوجی تربیتی ماہرین یمن بھی بھیجے تھے۔