اسرائیل لبنان تک محدود نہیں رہے گا بلکہ ”گریٹراسرائیل“کے ایجنڈے کے تحت وہ جنگ کا دائرہ پورے مشرق وسطی میں پھیلائے گا. مشرق وسطی امور کے ماہرین کی گفتگو
لبنانی مزاحمتی تحریک حزب اللہ کے سربراہ حسن نصراللہ کی شہادت کے بعد خطے میں ایک بڑی جنگ کے خطرات مزید بڑھ گئے ہیں مشرق وسطی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ غزہ میں ایک سال سے اسرائیل کی جارحیت جاری ہے جبکہ عالمی برداری کی جانب سے جنگ بندی کے لیے جاری مذکرات میں اسرائیل نے نہ صرف تاخیری حربے استعمال کیئے بلکہ کئی موقعوں پر”اہداف کے حصول تک“جنگ کو جاری رکھنے کا اعلان کیا اسرائیلی وزیراعظم نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جمعہ کے روز اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں کھڑے ہوکر جنگ کو جاری رکھنے کا اعلان کیا جس سے اقوام متحدہ‘اسرائیل کے اتحادیوں اور عالمی برادری کے کردار پر سوال کھڑے ہوتے ہیں .
پاکستان میں العربیہ‘الجزیرہ سمیت متعدد عرب نشریاتی اداروں کی نمائندگی کرنے والے سنیئرصحافی منصورجعفر نے ”اردوپوائنٹ “سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حسن نصراللہ کی شہادت کی خبرصبح سے گردش کررہی تھی مگر حزب اللہ کی جانب سے اس کی باضابط تصدیق میں تاخیررابطوں میں کمی یا حکمت عملی ہوسکتی ہے انہوں نے کہا کہ ابھی بھی جو تصدیق سامنے آئی ہے اس میں مبہم الفاظ کا استعمال کیا گیا ہے تاہم اس کے بعد مشرق وسطی میں ایک بڑی جنگ کے بادل اور گہرے ہوگئے ہیں انہوں نے کہا کہ اسرائیل کے لبنان پر حملے کھلی جنگ اور جارحیت ہے جس میں شہری آبادیوں پر میزائل برسائے گئے.
انہوں نے کہا کہ یہ درست ہے کہ حزب اللہ ایک طاقتور تنظیم ہے مگر حالیہ اسرائیلی حملوں میں اس کی مرکزی قیادت میں سے بہت سارے راہنما شہید ہوچکے ہیں مگر اس کا مطلب یہ نہیں لیا جانا چاہیے کہ قیادت کے خاتمے سے تحریک ختم ہوجائے گی انہوں نے کہا کہ حماس اور افغانستان میں طالبان تحریک کی مثالیں سامنے ہیں کہ چند سالوں میں یہ تحریکیں پہلے سے زیادہ توانا ہوکر ابھر خود حزب اللہ بھی ایسے نشیب وفرازسے گزرچکی ہے.
کراچی میں مقامی جریدے کے ایڈیٹر اسراربخاری کا کہنا ہے کہ مشرق وسطی میں بڑی جنگ میں تاخیرہوسکتی ہے مگر اسرائیل خصوصا نیتن یاہو اپنی سیاسی بقاءکے لیے خطے کو جنگ میں جھونکنا چاہتے ہیں لبنان کی خودمختاری کی پامالی اور بین الااقوامی سرحدوں اور فضائی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اسرائیل ایک ہفتے سے لبنان پر باقاعدہ جنگ مسلط کیئے ہوئے ہے مگر اقوام متحدہ میں تقریروں کے علاوہ کوئی اقدام نظرنہیں آیا انہوں نے کہا کہ سب سے شرمناک کردارعرب اور مسلمان ملکوں کے سربراہان کا ہے انہوں نے غزہ اورلبنان پر کوئی مشترکہ قراردادپیش کرنے کی کوشش بھی نہیں کی.
انہوں نے پشین گوئی کی کہ اسرائیل کے حوصلے بڑھیں گے تو وہ جنگ کو لبنان تک محدود نہیں رکھے گا بلکہ ”گریٹراسرائیل“کے ایجنڈے کے تحت وہ اس کا دائرہ پورے مشرق وسطی میں پھیلائے گا. ایڈیٹراردوپوائنٹ میاں محمد ندیم نے اسراربخاری سے اتفاق کرتے ہوئے کہا کہ اسرائیلی قیادت”گریٹراسرائیل“کے ایجنڈے پر گامزن ہے اور وہ مصر‘سعودی عرب‘اردن سمیت کئی عرب ممالک کے علاقوں پر دعویدار ہے انہوں نے کہا کہ اسرائیل اصل میں خود کو ”کعنان“کی قدیم ریاست کا وارث قراردیتا ہے اور اس سلسلہ میں کئی دہائیوں سے وہ مختلف نقشے بھی جاری کرتے آرہے ہیں مگر مسلمان ممالک خصوصا عربوں نے اس کی روک تھام کے اقدامات کی بجائے تل ابیب کی شرائط پر معاملات کو چلایا انہوں نے کہا کہ خود کو اسرائیل کے اتحادی کہنے والے عرب ممالک کے حکمران بھی اس ساری صورتحال میں مجرمانہ خاموشی اختیار کیئے ہوئے ہیں.
انہوں نے کہا کہ ایک طرف فلسطین اور لبنان کا مسلہ ہے تو دوسری جانب یمن اور سوڈان بھی سلگ رہے ہیں اور حالات بہت زیادہ خرابی کا شکار ہیں انہوں نے کہا کہ سوڈان کے قدرتی وسائل پر قبضے کی جنگ میں عرب طاقتوں کا کردار ابھی تک دبایا جارہا ہے مگر اسے زیادہ دیر تک دبانا ممکن نہیں ہوگا جس طرح یمن میں کئی عرب ملکوں نے ایک امریکی نجی فوجی کمپنی کی خدمات لیں اسی طرح سوڈان میں ہورہا ہے اور قاہرہ بھی اس میں اہم کردار اداکررہا ہے عراق میں بھی مختلف طاقتیں پیکار ہیں ‘یمن میں حوثی دوبارہ فعال ہوگئے ہیں اور انہوں نے کھلے سمندروں میں بحری جہازوں کو نشانہ بنانا شروع کردیا ہے یہ ساری صورتحال ایک بڑی جنگ میں بدلتی نظرآرہی ہے اور قوی امکان ہے کہ آخرمیں یہ تیسری عالمی جنگ میں بدل جائے.
واضح رہے کہ روس بھی مشرق وسطی میں بڑی جنگ کے خطرے کا خدشہ ظاہرکرچکا ہے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے خطاب میں روسی وزیرخارجہ سرگئی لاروف نے جمعہ کے روز کہا ہے کہ مشرق وسطی ایک بار پھربڑی جنگ کے دہانے پر ہے اور کچھ طاقتیں چاہتی ہیں کہ ایسا ہو کر رہے سرگئی لاروف نے کہا کہ اس سے پہلے کہ صورتحال مکمل طور پر قابو سے باہر ہوجائے تشدد کو روکنا ہوگا کیونکہ کچھ لوگ ایسے ہیں جو خطے میں بڑی جنگ پر اکسا رہے ہیں.
روس کے وزیرخارجہ نے لبنان پر اسرائیل کے اندھا دھند حملوں کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ عام شہری ان حملوں کا نشانہ بن رہے ہیں انہوں نے خبردار کیا کہ اسرائیل نے جو رستہ چنا ہے اس سے نہ تو اسرائیل میں نقل مکانی پرمجبور افراد شمالی علاقے میں واپس آسکیں گے اور نہ ہی لبنان اسرائیل سرحد پر سکیورٹی یقینی بنائی جاسکتی ہے. سرگئی لاروف نے زور دیا کہ امریکا کے پاس چوائس ہے کہ وہ فوری جنگ بندی کا مطالبہ کرے یا ان کوششوں کو روکتا رہے انہوں نے کہا کہ سلامتی کونسل کے اراکین فلسطین اور اسرائیل کے عوام کے مفادات کو اپنے تنگ نظر سیاسی مفادات پر ترجیح دیں اور فوری جنگ بندی کا مطالبہ کریں روسی وزیر خارجہ نے مطالبہ کیا کہ جلد تمام یرغمالی رہا کرائے جائیں اور بلا روک ٹوک انسانی امداد یقینی بنائی جائے.
دوسری جانب یمنی فوج کے ترجمان کا بیان سامنے آچکا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ لبنان اور فلسطین پر جاری اسرائیلی بمباری کا انتقام لینے کے لیے بحیرہ احمر میں امریکی بحریہ کے جنگی جہازوں پر بڑا حملہ کرنے کا دعوی کیا ہے یمنی افواج کے ترجمان بریگیڈیئر جنرل یحی ساری نے کہا کہ تازہ حملے میں 3 امریکی ڈسٹرائیر کو نشانہ بنایا گیا ہے جو اسرائیل کی مدد کیلئے مقبوضہ علاقوں کی جانب بڑھ رہے تھے.
فوجی ترجمان کے مطابق حملے میں بحریہ، فضائیہ اور بری فوج نے حصہ لیاکاروائی کے دوران23بیلسٹک اور ونگڈ میزائل داغے گئے اور ڈرونز سے بھی مدد لی گئی انہوں نے کہا کہ یہ حملے اس وقت تک جاری رہیں گے جب تک تل ابیب، غزہ پر حملے بند نہیں کرتا اور فلسطینیوں کو امداد نہیں پہنچائی جاتی دوسری جانب مزاحمتی فورسز کی جانب سے عراق سے بھی مقبوضہ علاقوں میں ایک اہم ہدف کو ڈرون سے نشانہ بنایا گیا ہے.