بشریٰ بی بی نے 14 نومبر 2017 کا طلاق نامہ من گھڑت قرار دے دیا ہے۔
اسلام آباد کی مقامی عدالت میں بیان دیتے ہوئے سابق خاتون اول کا کہنا تھا کہ خاور مانیکا نے مجھے زبانی طلاق اپریل 2017 میں دی ،اپریل سے اگست 2017 تک میں نے عدت کا دورانیہ گزارا۔
اگست 2017 میں لاہور اپنی والدہ کے گھر منتقل ہوگئی ،بیٹوں سے مشورے کے بعد فروری 2018 میں باقاعدہ نکاح کا اعلان کیا، دورانِ سماعت سلمان اکرم راجہ اور رضوان عباسی کے درمیان تلخ کلامی بھی ہوئی۔عدالت نے عدت میں نکاح کے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا جو آج دوپہر ایک بجے سنایا جائے گا۔
دوسری جانب احتساب عدالت اسلام آباد نے پی ٹی آئی کے سابق چیئرمین و سابق وزیراعظم اور ان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے خلاف توشہ خانہ کیس کا تحریری فیصلہ جاری کر دیا۔
احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے 23 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کیا، تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ استغاثہ اپنا کیس ثابت کرنے میں کامیاب رہی۔عمران خان اور بشریٰ بی بی کو 14 سال قید کا حکم دیا گیا، جیل میں گزارا ہوا وقت سزا میں شامل تصور ہوگا۔
تحریری فیصلے میں کہا گیا کہ سابق چیئرمین پی ٹی آئی اور بشریٰ بی بی نے وزیراعظم آفس کا غلط استعمال کیا اور 1573.72 ملین کا مالی فائدہ حاصل کیا، دونوں قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے مرتکب پائے گئے۔عدالتی فیصلے میں مزید کہا گیا کہ فراڈ کے ذریعے پبلک پراپرٹی کو حاصل کیا گیا، سیٹ کی مالیت پرائیویٹ طور پر لگوائے تخمینے سے کہیں زیادہ تھی۔
علاوہ ازیں علیمہ خان کیخلاف فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی(ایف آئی اے) کی جانب سے سائبر کرائم کے نتیجے میں انکوائری کا نوٹس جاری کردیا گیا ہے۔
علیمہ خان کیخلاف ریاست کی مدعیت میں انکوائری کا حکم دیا گیا ، انکوائری کا حکم دھمکیاں، معاشرے میں انتشار پھیلانے اور عوام خوف و ہراس پھیلانے کے نتیجے میں کیا گیا۔
ایف آئی اے کی جانب سے نوٹس میں کہا گیا علیمہ خان 3 فروری 2024ء کو صبح گیارہ بجے ایف آئی اے سائبر کرائم رپورٹنگ سینٹر میں پیش ہو کر وضاحت پیش کریں۔عدم پیشی کی صورت میں یہ خیال کیا جائے گا کہ علیمہ خان کے پاس اپنے دفاع میں کہنے کیلئے کچھ نہیں ہے۔