خواتین سے متعلق آئین کے منافی کوئی قانون سازی نہیں ہونی چاہیئے، چیف جسٹس معاشرے کی بیداری کیلئے خواتین کی بیداری ضروری ہے، جسٹس منصور علی شاہ

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ اسلام سے بڑھ کر کسی مذہب نے خواتین کو حقوق نہیں دے رکھے، ہم اسلامی معاشرے میں رہ رہے ہیں، جہاں خواتین کے حقوق کا تحفظ کرنا دینی فریضہ ہے، خواتین سے متعلق آئین کے منافی کوئی قانون سازی نہیں ہونی چاہیئے۔

اسلام آباد میں خواتین کے عالمی دن کے موقع پر عدلیہ میں خواتین کے کردار سے متعلق منقعدہ تقریب سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ ہم ایک اسلامی معاشرے میں رہ رہے ہیں، اقتدار اعلیٰ کا اختیار اللہ کے پاس ہے اور اللہ تعالیٰ اور دین اسلام نے خواتین کو تمام حقوق دے رکھے ہیں۔

چیف جسٹس نے مزید کہا کہ نبی کریم ﷺ پر سب سے پہلے ایمان لانے والی شخصیت خاتون تھی، ہمارے آئین میں بھی اللہ کی حاکمیت کا ذکر ہے، آئین کے منافی کوئی قانون سازی نہیں ہوسکتی، اسلام میں خواتین کو تمام حقوق دیے گئے ہیں۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ قرآن میں حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کی والدہ حضرت مریم کا ذکر 35 مرتبہ آیا ہے جب کہ بائبل میں تو کئی بار آیا ہے، اسلام میں خواتین کو حقوق دے کر یہ واضح کر دیا ہے کہ خواتین سے متعلق آئین کے منافی کوئی قانون سازی نہیں ہونی چاہیئے۔

معاشرے کی بیداری کیلئے خواتین کی بیداری ضروری ہے، جسٹس منصور علی شاہ

دوسری جانب خواتین کے عالمی دن کے موقع پر عدلیہ میں خواتین کے کردار پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ خواتین آگے بڑھتی ہے تو معاشرہ آگے بڑھتا یے، خواتین کی ترقی معاشرے کی ترقی ہے، خواتین کے حقوق بھی برابر ہے، معاشرے کی بیداری کے لیے خواتین کی بیداری ضروری ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدلیہ میں خواتین کی شرح 50 فیصد پونی چاہیئے، خیبر پختونخواہ ماتحت عدلیہ میں خواتین ججز کی تعداد 30 فیصد ہے، سپریم کورٹ میں خواتین ججز کی تعداد کم ہے، پشاور ہائیکورٹ بلوچستان ہائیکورٹ میں کوئی خاتون جج نہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ ہمیں عدلیہ میں خواتین کی تعداد بڑھانا ہوگا، عدلیہ کے ملک بھر کے اسٹاف میں خواتین کی شرح صرف 2 فیصد ہے، فیڈرل شرعی عدالت میں کوئی خاتون جج نہیں، ہمیں عدلیہ میں ججز کی تعیناتی پالیسی کا جائزہ لینا ہوگا۔

لاہور ہائیکورٹ کے ایک فیصلے سے الیکشن پھر ڈی ریل ہو سکتے تھے، چیف جسٹس

اس سے قبل سپریم کورٹ کے سبکدوش ہونے والے جسٹس سردار طارق مسعود کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس ہوا، چیف جسٹس جسٹس قاضی فائزعیسیٰ کی زیرصدارت فل کورٹ میں ججز، اٹارنی جنرل، پاکستان بارکونسل، سپریم کورٹ بار سمیت دیگر شریک ہوئے۔

مقررین نے جسٹس سردار طارق مسعود کی عدلیہ کے لیے شاندار خدمات پر انہیں خراج تحسین پیش کیا۔

اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے کہا کہ فوجداری معاملات میں جسٹس سردار طارق مسعود کا کوئی ثانی نہیں، انہیں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔

جسٹس طارق مسعود نے کہا کہ چیف جسٹس قاضی فاٸز عیسیٰ کو بہت اصول پسند پایا، قاضی فاٸز عیسیٰ کو کبھی اپنے اصولوں سے پیچھے ہٹتا نہیں دیکھا، فراہمی انصاف کیلٸے تمام ججز کی سپورٹ پر انکا شکر گزار ہوں، مکمل اطمینان کیساتھ یہاں سے جا رہا ہوں۔

چیف جسٹس قاضی فاٸزعیسیٰ نے بھی جسٹس طارق مسعود کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ میرے خلاف ریفرنس درست ہوتا تو جسٹس سردار طارق چیف جسٹس پاکستان ہوتے، جسٹس سردار طارق مسعود کو ہمیشہ اچھے الفاظ میں یاد کیا جائے گا۔

چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کے ایک فیصلے سے الیکشن پھر ڈی ریل ہو سکتے تھے لیکن ہم نے چھٹیوں پر جانے سے پہلے رات کو بیٹھ کر اس آرڈر کے خلاف کیس سنا تھا۔**

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جسٹس سردار طارق مسعود کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس میں گانا دہرا دیا، ’ابھی نہ جاٶ چھوڑ کر ۔۔۔ کہ دل ابھی بھرا نہیں ہے‘۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں