قیام پاکستان سے آج تک کوئی بھی سول یا فوجی حکمران قوم سے کیئے گئے وعدوں کی پاسداری نہیں کرسکاہندوستان میں لاگو قوانین میں سول بیوروکریسی کو بالادستی حاصل تھی افسرشاہی کے اعلی ترین عہدوں پر انگریزتعینات تھے.
ملک کے قیام سے محض تین دن پہلے بانی پاکستان نے11اگست 1947میں نوزائیدہ مملکت کے لیے بنیادی اصول کا اعلان ان الفاظ میں کیا”اس وقت ہندوستان جس بڑی لعنت میں مبتلا ہے وہ رشوت ستانی اور بدعنوانی ہے ‘ہمیں سختی سے اس کا قلع قمع کر دینا چاہیے قائداعظم نے اپنے ریڈیو خطاب میں کہا کہ ایک اور لعنت احباب پروری اور اقربا نوازی ہے جسے ہرگز برداشت نہیں کیا جائے گا“ بانی پاکستان کی تقریر کے اس حصے کو سنسر کرنے کی کوشش کی گئی یہ کوشش کس نے اور کیسے کی؟ آج تک وہ کردار سامنے نہیں آسکے تاہم بدقسمتی سے ملک کو سب سے زیادہ جن لعنتوں نے نقصان پہنچایا وہ رشوت ستانی اور اقرباءپروری ہی ہیں معروف صحافی اور اس وقت کے ڈان نیوزکے ایڈیٹرالطاف حسین نے دباﺅ برداشت کرنے سے انکار کردیا اور ان کی وجہ سے بانی پاکستان کی تقریر کا یہ حصہ ہم تک پہنچا 75سالوں سے ملک میں رشوت ستانی اور اقرباءپروری نے فروغ پایا ہے اور ملک اس دلدل میں مزید دھنستا جارہا ہے اور آج بھی ملک کے بیشتر مسائل انہی دوبرائیوں سے جڑے ہوئے ہیں .
وزیراعظم کے منصب کا حلف اٹھانے کے بعد ایوان میں یا ذرائع ابلاغ پر کی گئی پہلی تقریر وزیراعظم کی اس سوچ کی عکاس ہوتی ہے جو اس نے برسراقتدار آنے سے پہلے اپنے منشور کے طور پر پیش کی ہوتی ہے یا ملک اور قوم کی ترقی کے ان وعدوں کے ایفا کا مظہر ہوتی ہے جو اس نے اپنی انتخابی مہم کے دوران کیے ہوتے ہیں یہ الگ بات کہ ان میں سے بیشتر وعدے ایوان کی حد تک ہی محدود رہ جاتے ہیں اور75سالوں میں آج تک کسی بھی سربراہ مملکت نے قوم سے کیئے اپنے وعدوں کو پورا نہیں کیا.
ملک کے پہلے وزیراعظم نواب زادہ لیاقت علی خان نے حلف برداری کے موقع پر کوئی تقریر نہیں کی تاہم 18 اگست 1947 کو عیدالفطر کے موقعے ایک بیان میں نواب زادہ لیاقت علی خان نے اعلان کیا کہ میری شدید خواہش ہے کہ امیر امیرتر اور غریب، غریب تر نہ ہوتا چلا جائے، پاکستان میں غریب کے حقوق و مفادات کو اولیت حاصل ہو گی اور بعد میں کسی دوسرے کے ہم غریب کے استحصال، ناجائز منافع خوری اور بدعنوانی کو کسی بھی شکل میں برداشت نہیں کریں گے اور نہ ہی اس کی اجازت دیں گے میں بدعنوان افراد کو یہ واضح طور پر بتا دینا چاہتا ہوں کہ خواہ وہ کسی بھی جگہ پر یا کسی بھی عہدے پر ہوں ان کے دن گنے جا چکے ہیں چار برس بعد نواب زادہ لیاقت علی خان جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے شہید کر دیے گئے.
ان کے بعد خواجہ ناظم الدین، محمد علی بوگرا، چوہدری محمد علی، حسین شہید سہروردی، آئی آئی چندریگر سے لے کر فیروز خان نون پاکستان کے پہلے فوجی حکمران جنرل ایوب خان‘جنرل محمد یحییٰ خان ملکی تاریخ کے پہلے سویلین چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر ذوالقار علی بھٹوتک نہ صرف ملک کا مشرقی بازو ٹوٹ چکا تھا بلکہ ملک میں معاشی بدحالی‘رشوت ستانی اور اقراباءپروری عروج پر پہنچ چکی تھی پانچ جولائی 1977 کو بری فوج کے سربراہ جنرل محمد ضیا الحق نے تیسرا ملک گیر مارشل لا نافذ کر کے اقتدار سنبھال لیاانہوں نے90دن میں انتخابات کروانے کی یقین دہانی کروائی سابق حکمرانوں کی طرح ان کی پہلی تقریر بھی ملک میں معاشی بدحالی‘رشوت ستانی ‘اقراباءپروری ‘بدعنوانی جیسے الزامات نمایاں رہے فروری 1985میں غیر جماعتی بنیادوں پر عام انتخابات منعقد ہوئے اور پیر پگارا کی تجویز پر محمد خان جونیجو ملک کے وزیراعظم بنے لگ محمد خان جونیجو کی حکومت سوا تین سال چلی اور 29 مئی 1988 کو جنرل محمد ضیا الحق نے ان کی حکومت ہی نہیں بلکہ قومی اسمبلی کو بھی توڑنے کا اعلان کر دیا 30 مئی کو انہوں نے قوم سے خطاب کیا اور کہا کہ وزیراعظم مکمل طور پر سیاسی دباﺅ کو شکار ہو چکے تھے جس سے کرپشن، اقربا پروری اور بدنظمی عام ہو چکی تھی اور ملک میں امن و امان کی صورت حال مکمل طور پر بگڑ کر رہ گئی تھی.
ضیاءالحق کی طیارہ حادثے میں موت کے بعد سینیٹ کے چیئرمین غلام اسحاق خان نے ملک کے سربراہ کا عہدہ سنبھال لیا جس کے بعددو دسمبر 1988 کو محترمہ بے نظیر بھٹو نہ صرف پاکستان بلکہ اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں اپنے عہدے کا حلف اٹھانے کے بعد انہوں نے قوم سے خطاب سیاسی قیدیوں کی رہائی‘پیپلزپارٹی کے برطرف کارکنوں کی ملازمیتوں پر واپسی ‘پریس کو آزاد کرنے اور نیشنل پریس ٹرسٹ توڑنے کا بھی اعلان کیا اور کہا کہ پریس کی آزادی کے منافی تمام قاعدے قوانین منسوخ کر دیے جائیں گے بے نظیر بھٹو نے طلبہ سیاست پر عائد پابندیوں کو ختم کرنے کا اعلان کیا 20 ماہ بعد ان کی حکومت ختم کر دی گئی اور 1990میں میاں محمد نواز شریف، 1993 میں بے نظیر بھٹو اور 1997 میں پھر میاں محمد نواز شریف ملک کے وزیراعظم بنے .
ملک میں سیاسی عدم استحکام کا سلسلہ جاری رہا حتی کہ 12 اکتوبر 1999 کو جنرل پرویز مشرف نے مارشل لا لگائے بغیر ملک کا اقتدار سنبھال لیا انہوں نے اپنے لیے چیف ایگزیکٹو کا عہدہ پسند کیا جنرل پرویز مشرف نے برسراقتدار آنے کے بعد اپنے اثاثوں کا اعلان کیا اور کہاکہ ان کا سیاست میں آنے کا کوئی ارادہ نہیں 2002 میں جنرل پرویز مشرف کو بھی ملک میں عام انتخابات منعقد کروانے پڑے جس کے نتیجے میں پہلے میر ظفر اللہ خان جمالی اور پھر چوہدری شجاعت حسین اور شوکت عزیز ملک کے وزرائے اعظم بنے انہوں نے بھی اپنے پہلے خطابات میں اپنے پیش رﺅں کی طرح بلند و بانگ دعوے کیے 2008 میں منعقد ہونے والے عام انتخابات میں یوسف رضا گیلانی وزیراعظم کے منصب پر فائز ہوئے 2013 کے عام انتخابات میں میاں محمد نواز شریف تیسری مرتبہ ملک کے وزیراعظم منتخب ہوئے اور خطابات کا سلسلہ جاری رہا 25 جولائی 2018 کو ملک ایک مرتبہ پھر عام انتخابات کے تجربے سے گزرا اس مرتبہ وزارت عظمیٰ کا ہما پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے سر بیٹھا.
انہوں نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد 19 اگست 2018 کو قوم سے طویل خطاب کیا اور بدعنوانی کا نشانہ بنانے والی اور انسانی ترقی پر مرکوز اصلاحات کا اعلان کیا انہوں نے ایک گھنٹہ سے زائد خطاب کرتے ہوئے ایک اسلامی فلاحی ریاست تعمیر کرنے سے متعلق اپنی مہم کے دوران کیے گئے وعدوں کو دہرایا انہوں نے کہا کہ میں بدعنوانوں کے خلاف لڑوں گا یا تو یہ ملک بچے گا یا بدعنوان لوگ عمران خان کے وعدے متعدد پاکستانیوں کے دل کی آواز تھے مگر افسوس کہ ان میں سے بیشتر وعدے وعدے ہی رہے عدم اعتماد کے نتیجے میں عمران خان کی حکومت کا خاتمہ کے بعد پاکستان کی تمام سیاسی جماعتوں کے اتحاد پی ڈی ایم نے مسلم لیگ نون کے صدر شہباز شریف کو وزیراعظم چنا انہوں نے بھی مہنگائی‘بدعنوانی ‘معاشی مسائل پر بات کی مگر اتحادی حکومت کا یہ دور عام شہریوں کے لیے انتہائی مشکل ثابت ہوا اس دوران اشیاءضروریہ کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ‘بجلی ‘گیس ‘پانی کے بلوں ‘پیٹرولیم مصنوعات میں کئی سو گنا اضافہ‘روپے کی قدرمیں کمی اور ڈالر کی قدرمیں تین گنا تک اضافے سے مہنگائی کا بدترین طوفان آیا ‘ مگر قوم کے ساتھ کیا کوئی وعدہ بھی پورا نہ ہوسکا پی ڈی ایم حکومت کے بعد قائم ہونے والی ملکی تاریخ کی نگران قومی وصوبائی حکومتوں کو بھی پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کا ہی تسلسل قراردیا ہے کیونکہ اپوزیشن کی عدم موجودگی میں نگرانوں حکومتوں کو اتحادی حکومت نے ہی قائم کیا تھا نگران حکومت کے دور میں مہنگائی کی شرح میں مزید اضافہ ہوا جبکہ بجلی‘گیس اور پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں ہفتوں کے حساب سے بڑھتی رہی 2018سے2024تک اندرونی وبیرونی قرضوں میں بھی بے پناہ اضافہ ہوا ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ امریکی ڈالر3سو روپے کی حد پار کرگیا اس دوران عالمی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں کمی ہوئی مگر اس کے ثمرات پاکستان کے عوام تک نہ پہنچ سکے.
فروی2024میں انتخابات کے بعد پیپلزپارٹی ‘ایم کیوایم اور دیگر جماعتوں کے اتحاد سے شہباز شریف ایک مرتبہ پھر ملک کے وزیراعظم منتخب ہو چکے ہیں اب دیکھنا ہے کہ اس دور کے لیے وہ عوام کو کون سے نئے خواب دکھاتے ہیں؟کیا پاکستان میں کسی ایسی حکومت کا قیام ممکن ہے جو بانی پاکستان کے75سال پہلے بتائے گئے مرض بدعنوانی‘رشوت ستانی اور اقربا پروری کو دور کرکے اس ملک کو درست سمت پرڈال سکے؟.