کییف حکومت کے مطابق روس نے گزشتہ ہفتے، جو فضائی بمباری کی تھی، وہ اب تک رات کے اوقات میں کیے گئے حملوں کی سب سے بڑی کارروائی تھی۔ اس میں ملک بھر میں توانائی کی تنصیبات پر لگ بھگ 90 میزائل اور 60 ڈرون فائر کیے گئے جبکہ کم از کم پانچ افراد ہلاک ہوئے۔
یوکرین اور روس کے ایک دوسرے کے خلاف میزائل حملے
یوکرین کے وزیر توانائی خیرمن گالوشینکو نے صحافیوں کو بتایا، ”ہمیں نقصان کا اندازہ لگانے کے لیے مزید وقت درکار ہے کیونکہ وہاں بہت زیادہ ملبہ موجود ہے
گالوشینکو نے یہ واضح نہیں کیا کہ وہ اربوں کا حوالہ کس کرنسی میں دے رہے ہیں تاہم عالمی بینک نے جنگ کے آغاز سے لے کر اب تک یوکرین کو درپیش تعمیر نو کی کل لاگت کا تخمینہ کم از کم 486 بلین ڈالر لگایا ہے۔
گالوشینکو نے فروری 2022 میں حملوں کے آغاز کے بعد سے اسے سب سے بڑا حملہ قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ متاثرہ تنصیبات میں پاور اسٹیشنز بھی تھے، جن کی تعمیرنو حال ہی میں کی گئی تھی۔
پوٹن کا دوبارہ انتخاب، روس میں کون سی تبدیلیاں آ سکتی ہیں؟
انہوں نے پیر کو جنوبی شہر اوڈیسا پر رات کو کیےگیے روسی حملے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا، ”وہ ایسے حملے روزانہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘‘
بحیرہ اسود کے بندرگاہی شہر کے ایک حصے کی بجلی اس وقت منقطع ہو گئی، جب مار گرائے گئے ایک ڈرون کا ملبہ انرجی پلانٹ سے ٹکرا گیا۔
انہوں نے کہا کہ یوکرین کا دوسرا سب سے بڑا شہر خارکیف اس وقت ”سب سے مشکل صورتحال‘‘ کا سامنا کر رہا ہے۔ گزشتہ جمعرات کو ایک میزائل حملے نے اس مشرقی شہر کی بجلی مکمل طور پر منقطع کر دی تھی، جس سے لاکھوں گھروں کو پانی اور بجلی کی سپلائی بھی منقطع ہو گئی تھی۔
یوکرین کی جنگ ہتھیاروں کی عالمی تجارت کو کیسے بدل رہی ہے
یوکرین اب اپنی بجلی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے دوسرے ممالک سے بجلی درآمد کر رہا ہے۔ گالوشینکو نے کہا کہ ملک کو یورپی یونین سے اس کی موجودہ 1.7 گیگا واٹ کی صلاحیت سے زیادہ بجلی درآمد کرنے کی ضرورت ہے، ”آج ہمیں مزید بجلی کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے یہ ہماری بقا کا سوال ہے۔‘‘