روس ایٹمی جنگ کے لیے تیار ہے‘یوکرین میں امریکی فوج کی موجودگی کو واشنگٹن کی جانب سے جنگ کا اعلان تصور کیا جائے گا.صدرپوٹن امریکا ”مشیروں“اور پرائیویٹ کنٹریکٹرزکی آڑمیں اپنی فورسزکو تعینات کرتا ہے ‘نیٹو اتحادی یوکرین کو دوبارہ مسلح کرنے کے لیے مذکرات کی بات کررہے ہیں‘ماسکو بامعنی مذکرات کے لیے تیار ہے تاہم کسی چال کو برداشت نہیں کیا جائے گا. صدر ولادیمیر پیوٹن کا انٹرویو

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے خبردار کیا ہے کہ روس ایٹمی جنگ کے لیے تیار ہے، اگر امریکا نے یوکرین میں فوج بھیجی تو اس اقدام کو جنگ واشنگٹن کی جانب سے جنگ کا اعلان تصور کیا جائے گا ‘ہم واضح کردینا چاہتے ہیںروس یوکرین میں امریکی فوجی کے ساتھ حملہ آوروں جیسا سلوک کرے گا. صدر ولادیمیر پوٹن نے روس کے نشریاتی ادارے کے ساتھ انٹرویو میں یوکرین کے بارے میں روس کے موقف کو کھل کربیان کیا انہوں نے کہا کہ مغرب 2014سے مسلسل مداخلت کررہا ہے اور کئی بار اشتعال انگیزکاروائیاں کرچکا ہے جن میں روس کی سرحدوں کے قریب نیٹو افواج کی مشقوں کے پر نقل وحرکت شامل ہے .

انہوں نے اپنے موقف کا اعادہ کیا کہ یوکرین میں کسی بھی غیر ملکی فوجی دستوں کی موجودگی‘ مغربی ہتھیاروں کی فراہمی میدان جنگ کی صورتحال کو تبدیل نہیں کرسکتی اور نہ ہی ماسکو کو اپنے مقاصد کے حصول سے روکے گی انہوں نے کہا کہ امریکہ نے اعلان کیا کہ یوکرین میں فوج نہیں بھیجے گا جبکہ ساری دنیا جانتی ہے کہ”مشیروں“کے روپ میں امریکی فورسزموجود ہیں ہم اپنی سرزمین پر کسی بھی صورت امریکی فورسزکو برداشت نہیں کریں گے‘انہوں نے کہا کہ امریکا ”مشیروں“اور پرائیویٹ کنٹریکٹرزکی آڑمیں اپنی فورسزکو تعینات کرتا ہے واشنگٹن کے اس طریقہ کار سے ہرکوئی واقف ہے روس اسے اپنے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت سمجھتا ہے اورہم امریکی فورسزکے ساتھ دشمنوں والا سلوک ہی کریں گے چاہے وہ یوکرین کی سرزمین پر ہمارے سامنے آئیں.

انہوں نے کہا کہ نیٹو اتحادی ممالک کی جانب سے مسلسل اسلحہ ‘مالی معاونت اور افرادی قوت کی فراہمی میں اضافہ ناقابل برداشت ہے یوکرین اور روس کے درمیان تصادم کا راستہ مغربی اتحادیوں نے ہموار کیا . روس میں 15-17 مارچ کو ہونے والے انتخابات میں مزید 6 سال کی مدت کے لیے ولادیمیر پیوٹن کی فتح یقینی ہے، انتخابات سے چند روز قبل انہوں نے کہا کہ جوہری جنگ کا منظرنامہ فوری طور پر نظر نہیں آرہا اور یوکرین میں جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی کوئی ضرورت محسوس نہیں ہورہی ولادیمیر پیوٹن نے کہا کہ امریکا سمجھتا ہے کہ اگر اس نے امریکی فوجیوں کو روسی سرزمین یا یوکرین میں تعینات کیا تو روس اس اقدام کو مداخلت قرار دے گا.

دنیا کی سب سے بڑی ایٹمی طاقت میں حتمی فیصلہ ساز ولادیمیر پیوٹن نے کہا کہ کا جوہری تصادم کا انتباہ سرد جنگ کے بعد یورپی سلامتی کی نئی حد بندی کے حصے کے طور پر یوکرین سے متعلق مذاکرات کی ایک اور پیشکش کے ساتھ سامنے آیا ہے امریکا کا کہنا ہے کہ ولادیمیر پیوٹن یوکرین کے حوالے سے سنجیدہ مذاکرات کے لیے تیار نہیں ہیں یوکرین میں جنگ کے باعث 1962 کے کیوبا میزائل بحران کے بعد سے روس کے مغرب کے ساتھ تعلقات میں سب سے سنگین بحران سامنے آیا ہے اور ولادیمیر پیوٹن نے متعدد بار خبردار کیا ہے کہ اگر مغرب نے یوکرین میں لڑنے کے لیے فوج بھیجی تو ایٹمی جنگ چھڑ سکتی ہے.

انہوں نے کہا کہ روس یوکرین کے تنازع کو ختم کرنے کے لیے امن مذاکرات کے لیے تیار ہے، لیکن ماسکو ایسے بامعنی مذاکرات کی تلاش میں ہے جو ملک کے لیے سلامتی کی ضمانتیں فراہم کرے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہتا ہے کہ مذاکرات کیف کو دوبارہ مسلح کرنے کے لیے وقفے کا کام نہیں کریں گے صدرپوٹن نے کہا کہ ماسکو مذاکرات کے لیے تیار ہے انہوں نے امریکا اور نیٹو اتحادیوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ یہ نفسیاتی حربے استعمال کررہے ہیں جبکہ ہم زمینی حقائق پر مبنی مذکرات چاہیے ہیں .

ایک اور سوال کے جواب میں روسی صدر نے کہا کہ ابھی مذکرات کی بات چیت بھی ایک چال ہے کیونکہ یوکرین کو مہیا کیا گیا اسلحہ بارود ختم ہورہا ہے جبکہ امریکی کانگریس نے بھی یوکرین کی60بلین ڈالر کی امداد روک دی ہے تو ایسے حالات میں مذکرات کی بات صرف وقت حاصل کرنا ہے جب تک یوکرین کو دوبارہ بھاری مقدار میں اسلحہ ‘بارود نہ پہنچا دیا جائے واضح رہے کہ یوکرائن کے سابق صدر پیٹر پوروشینکو اور سابق جرمن چانسلر انجیلا مرکل دونوں نے اعتراف کیا ہے کہ 2014 میں ماسکو کے ساتھ ثالثی کے معاہدوں کو خاص طور پر جنگ میں کیف کو اپنی افواج کو دوبارہ مسلح کرنے کی مہلت دینے کے لیے استعمال کیا گیا تھا .

استنبول میں یوکرین کے اعلیٰ مذاکرات کار ڈیوڈ اراکامیا کے انکشافات کے مطابق اس وقت کے برطانیہ کے وزیر اعظم بورس جانسن نے مذاکرات کی ناکامی میں اہم کردار ادا کیا تھا انہوں نے واضح الفاظ میں یوکرینیوں سے کہا تھا کہ صرف لڑائی جاری رکھیں اورروس کے ساتھ کسی بھی دستاویز پر دستخط نہ کریں تاہم سابق برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے امن مذاکرات کو پٹڑی سے اتارنے میں کسی بھی کردار کی تردید کی تھی.

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں