کراچی سے حویلیاں جانے والی بدقسمت مسافر ٹرین جس میں اب تک 30 افراد کی موت کی تصدیق ہوچکی ہے اور 70 سے زائد افراد زخمی حالت میں پیپلز میڈیکل اسپتال نواب شاہ میں زیرعلاج ہیں۔
اسپتال حکام کے مطابق حادثے میں 30 افراد جاں بحق اور 200 سے زائد زخمی ہوئے، 70 زخمی پیپلز میڈیکل اسپتال لائے گئے ہیں، جن میں سے 50 زخمیوں کی حالت تشویشناک ہے، جب کہ باقی معمولی زخمی افراد کو شہداد پور میں طبی امداد دی گئی، زخمیوں کو بہترین طبی امداد فراہم کی جارہی ہے۔
حادثے میں بچ جانے والے خوش نصیب مسافروں کا بیان
جیکب آباد کے رہائشی اسلم نے برطانوی نشریاتی ادارے )
سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ وہ اپنے بیٹے کے ساتھ ٹرین میں سوار تھے، ہم دونوں سوئے ہوئے تھے کہ ایک دم ٹرین کی بوگی پٹری سے نیچے اتر گئی اور ہرطرف اندھیرا چھا گیا۔
اسلم نے بتایا کہ حادثے میں مجھے چوٹیں آئیں، جب کہ
ٹرین کی کھڑکی سے گر کرنے بچنے والی مسافر
ٹرین میں سوار ایک اور خوش نصیب نصیر احمد جو راولپنڈی جارہا تھا، اس نے بی بی سی کو بتایا کہ ٹرین کی بوگی پٹڑی سے اترتے ہی میں کھڑکی سے باہر گِر گیا، نیچے گرنے کی وجہ سے مجھے چوٹیں آئیں اور دور تک لڑکھڑاتے ہوئے چلتا رہا، اور کچھ دور جاکر گر گیا۔
نصیر نے بتایا کہ حادثے کی وجہ سے میرے اوسان خطا ہوگئے تھے، میرے ارد گرد بہت سی خواتین اور بچے زمین پر پڑے چلا رہے تھے، اور سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ یہ کیا ہوا ہے اور کیا کروں، میں نے قریب ہی نہر دیکھی تو اس سے اپنے ہاتھوں میں پانی بھرا اور بے ہوش افراد کے منہ پر ڈالا تاکہ وہ ہوش میں آجائیں۔’
نصیر احمد کے مطابق میں نے ایک خاتون کو بھی دیکھا جو اپنے بیٹے کے پاس بیٹھ کر چیخ رہی تھی کہ اٹھو، اٹھو، مگر
عمیر احمد کی بے بسی کا حال
عمیر احمد کا تعلق ضلع جیکب آباد سے ہے اور وہ بھی اس بدنصیب ٹرین میں اپنی اہلیہ کے ساتھ سوار تھے۔
عمیر نے بتایا کہ ٹرین حادثے میں مجھے شدید چوٹیں آئیں، میری ٹانگ اور سر بھی زخمی ہوگیا، میری اہلیہ بھی شدید زخمی حالت میں میرے ساتھ ہی پڑی تھی، ان کا خون بہہ رہا تھا اور وہ مجھے مدد کے لیے پکار رہی تھی۔
عمیر نے بتایا کہ میرے جسم میں طاقت نہیں تھی، میں نے زور لگا کر اٹھنے کی کوشش کی اور اہلیہ کو باہر نکالنا چاہا لیکن ایسا نہ کرسکا، میں خود کو بے بس محسوس کررہا تھا، تاہم وہاں موجود 3 افراد نے ہم دونوں کو نکالا، پانی پلایا اور گاڑی میں بٹھا کر اسپتال منتقل کردیا۔
حادثے میں بچ جانے والا زخمی خاندان
ٹنڈو آدم سے تعلق رکھنے والے سوار راشد علی اپنی پوری فیملی کے ساتھ ٹرین میں سوار تھے، ان کا کہنا ہے کہ حادثے کے وقت وہ ان کے بچے اور بیوی سورہے تھے، کہ اچانک ٹرین پٹڑی سے نیچے اتر گئی اور ہماری بوگی الٹ گئی۔
راشد کا کہنا ہے کہ کچھ دیر تک مجھے ہوش نہیں آیا، لیکن جب حواس بحال ہوئے تو مجھے اپنی بیوی، بچوں کا خیال آیا، میں نے دیکھا کہ میرے سامنے نہیں تھے، میں نے ان کو تلاش کیا تو وہ خوش قسمتی سے قریب ہی ٹوٹی ہوئی بوگی کی
راشد کے مطابق اس نے اپنے بچوں اور اہلیہ کو سیٹ کے نیچے سے نکالا تاہم وہ سب زخمی تھے، اور رو رہے تھے، لیکن میں نے انہیں حوصلہ دیا، اور ایک موٹرسائیکل سوار والا آیا جس نے ہماری مدد کی اور ہم اسپتال پہنچ گئے۔