اسلام آباد (اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین۔ 17 اپریل 2023ء) قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے الیکشن کمیشن کو21 ارب دینے کا مطالبہ مسترد کردیا ہے۔ جیو نیوز کے مطابق سپریم کورٹ کے حکم پر اسٹیٹ بینک کا الیکشن کمیشن کو 21 ارب جاری کرنے کا معاملہ، قائمہ کمیٹی خزانہ نے رپورٹ قومی اسمبلی میں پیش کی، جس پر قومی اسمبلی نے رپورٹ منظور کرلی ہے، وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ نے رپورٹ منظور کرنے کی تحریک پیش کی۔
قائمہ کمیٹی نے قومی اسمبلی کی اجازت کے بغیر فنڈز جاری نہ کرنے کی سفارش کی تھی۔ قائمہ کمیٹی خزانہ کی سفارش پر قومی اسمبلی نے کثرت رائے سے الیکشن کمیشن کو 21 ارب روپے فراہم کرنے کا مطالبہ مسترد کردیا ہے۔یاد رہے اس سے قبل قائم مقام گورنر اسٹیٹ سیما کامل کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے حکم پر پنجاب میں انتخابات کے لیے 21 ارب روپے مختص کر دئیے۔
قائم مقام گورنر اسٹیٹ بینک نے کہا الیکشن کے لیے فنڈز مختص کر دئیے تاہم یہ پیسے حکومت پاکستان کے ہیں۔فنڈز مختص کرنے سے پیسے اکاؤنٹ میں ہی موجود رہیں گے۔جب کہ حکومت نے بھی الیکشن کمیشن کو فنڈز دینے کا معاملہ قومی اسمبلی کو بھیجنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ سپریم کورٹ کی ہدایت پر پنجاب میں الیکشن کیلئے فنڈز کی فراہمی کا جائزہ لینے کیلئے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کا خصوسی اجلاس ہوا۔
رکن قومی اسمبلی قیصر شیخ کی زیر صدارت اجلاس میں سپریم کورٹ کی طرف پنجاب میں الیکشن کروانے کیلئے اسٹیٹ بینک کو فنڈز جاری احکامات کا قانونی جائزہ لیا گیا۔ اٹارنی جنرل، گورنر اسٹیٹ بینک اور آڈیٹر جنرل کو خصوصی طور پر اجلاس میں شرکت کی دعوت دی گئی تھی۔ اس کے علاوہ وزیر تجارت سید نوید قمر کو بھی دعوت نامہ جاری کیا گیا تھا۔ قائمہ کمیٹی نے فیصلہ کیا ہے کہ وزارت خزانہ الیکشن کمیشن کو فنڈز کی فراہم سے متعلق سمری کابینہ میں لائے۔
وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ سمری کو منظوری کے لیے قومی اسمبلی پیش کیا جائے گا۔ سپریم کورٹ نے ہدایت دی لیکن فیڈرل کنسو لیڈیزیٹڈ فنڈ حکومت کا ہے۔اس سال بجٹ میں الیکشن کے لیے پیسے مختص نہیں کیے گئے ہیں۔سپلیمنٹری گرانٹ کے طور پر قومی اسمبلی سے منظوری لینا ہو گی۔خیال رہے کہ عدالت عظمیٰ نے مرکزی بینک کو ہدایت کی ہے کہ وہ 2 صوبوں میں انتخابات کے لیے فیڈرل کنسولیڈیٹڈ فنڈ (ایف سی ایف) سے (آج) پیر کو 21 ارب روپے جاری کرے تاہم ماہرین کے مطابق یہ فنڈ اسٹیٹ بینک کے زیرانتظام نہیں ہے اور نہ ہی یہ اسے کنٹرول کرتا ہے جس سے عدالت عظمیٰ نے جاری کرنے کا حکم دیا ہے جبکہ قومی اسمبلی پہلے ہی باضابطہ طور پر اس کے اجرا کی مخالفت کر چکی ہے۔
اسٹیٹ بینک کے ایک سابق بینکر نے کہا کہ قومی اسمبلی کی منظوری کے بغیر وفاقی حکومت کے اکاؤنٹ سے رقم کے اجرا کی ہدایت غیرمعمولی ہے۔ اسٹیٹ بینک کے ایک سابق ڈپٹی گورنر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ ایسا ہی ہے جیسے کسی بینک میں پیسے جمع کرانے والے کی رضامندی کے بغیر اس کے اکاؤنٹ سے ادائیگی کرنے کو کہا جائے۔