ڈیموکریٹ پارٹی صدارتی انتخابات کے لیے نائب صدر کملا ہیرس کی نامزدگی سمیت دیگر امکانات پر غور کررہی ہے
امریکی ووٹرز رواں برس پانچ نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں ایک ایسے الیکشن کے بارے میں سوچ رہے ہیں جس میں دو غیر مقبول امیدوار ہیں جو بائیڈن کی ڈیموکریٹک پارٹی کی سرکردہ شخصیات امریکی صدر پر زور ڈال رہی ہیں کہ وہ اپنے دوبارہ انتخاب کی مہم سے دستبردار ہو جائیں.
امریکی نشریاتی ادارے کے مطابق حالیہ دنوں میں صدر بائیڈن سے کہا گیا ہے کہ نومبر کے انتخابات میں ان کے جیتنے کے امکانات کم ہو رہے ہیں اور یہ کہ ہار جانے کا امکان کانگریس کے کسی بھی ایوان کے حصول کیلئے ان کی پارٹی امیدوں کو متاثر کر سکتا ہے سابق صدر باراک اوباما نے مبینہ طور پر سیاسی اتحادیوں کو بتایا ہے کہ بائیڈن کے جیتنے کا امکان کم ہو رہا ہے اور ان کے خیال میں بائیڈن کو اپنی امیدواری کے امکانات پر گہرائی سے غور کرنے کی ضرورت ہے لیکن 81 سالہ بائیڈن کااصرار ہے کہ وہ 5 نومبر کے انتخابات میںڈیموکریٹک اسٹینڈرڈ بیئرر(ڈیموکریٹک معیارات کے علم بردار) ہوں گے اور انہوں نے ایسا کوئی واضح اشارہ نہیں دیا کہ وہ ممکنہ طور پر نائب صدر کملا ہیرس کے حق میں دستبردار ہونے والے ہیں.
امریکی نیوز اکاﺅنٹس کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں بعض اوقات وہ ساتھی ڈیموکریٹس کے ان خدشات کو سنتے رہے ہیں کہ سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خلاف ان کی مہم کمزور پڑ رہی ہے بائیڈن جو اس وقت تیسری بار کوویڈ 19سے مقابلہ کر رہے ہیں بحر اوقیانوس کے قریب ریاست ڈیلاویئر کے ریہوبوتھ بیچ پر اپنے گھر میں آرام کررہے ہیں اس دوران ان کا عوام کے سامنے آنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے ایوان نمائندگان کے اقلیتی رہنما جیفریز اور سینیٹ کے اکثریتی رہنما چک شومر نے گزشتہ ہفتے بائیڈن کے ساتھ الگ الگ نجی ملاقاتوں میں انہیں بتایا کہ اگر وہ پارٹی کے صدارتی امیدوار کے طور پر برقرار رہتے ہیں تو ڈیموکریٹس کیلئے کانگریس کے کسی بھی ایوان میں کامیابی حاصل کرنا مشکل ہو گا.
وائٹ ہاﺅس کے ترجمان اینڈریو بیٹس نے ایک بیان میں کہا کہ بائیڈن نے دونوں ڈیموکریٹک قانون ساز راہنماﺅں کو بتایا کہ وہ پارٹی کے نامزد امیدوار ہیں وہ جیتنے کا ارادہ رکھتے ہیں اورکارکن خاندانوں کی مدد سے متعلق اپنے 100 دن کے ایجنڈے کی منظوری کے لیے ان دونوں کے ساتھ مل کر کام کرنے کے منتظر ہیںمجموعی طور پر 20 ڈیموکریٹک قانون سازوں نے عوامی طور پر بائیڈن سے دوبارہ انتخاب کی کوشش ختم کرنے کی اپیل کی ہے جب کہ بہت سے لوگوں نے نجی طور پر اس بارے میں خدشات کا اظہار کیا ہے.
ریاست کیلیفورنیا کے نمائندے ایڈم شیف نے جو ٹرمپ پر سب سے زیادہ تنقید کرنے والوں میں سے ایک اور ایوان کی سابق اسپیکر نینسی پیلوسی کے قریبی اتحادی ہیں اس ہفتے کے شروع میں بائیڈن سے مقابلے سے الگ ہو جانے کا مطالبہ کیا تھاشیف نے ایک بیان میں کہا کہ ٹرمپ کی دوسری صدارت ہماری جمہوریت کی بنیاد کو کمزور کر دے گی اور مجھے اس بارے میں سنگین خدشات ہیں کہ آیا صدرجو بائیڈن ڈونلڈ ٹرمپ کو نومبر میں شکست دے سکتے ہیں.
حالیہ دنوں میں، ہالی ووڈ اداکار جارج کلونی نے جنہوں نے گزشتہ ماہ بائیڈن کے لیے ایک بڑی فنڈ ریزر کی میزبانی کی تھی ان سے اپنی مہم ختم کرنے کی اپیل کی جبکہ بائیڈن کے اہم فنڈ ریزر جیفری کیٹزنبرگ نے اس ہفتے لاس ویگاس میں ہونے والی میٹنگ میں صدر کو متنبہ کیا کہ بڑے عطیہ دہنگان ان کی مہم کی فنڈنگ سے گریزاں ہیں فی الواقع ہر ڈیموکریٹ جس نے بائیڈن سے اپنی مہم ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے اس نے پچھلے مہینے ٹرمپ کے ساتھ ڈبیٹ میں میں ان کی لڑکھڑاتی کارکردگی کا حوالہ دیا ہے جس میں بائیڈن تھکے ہوئے نظر آئے تھے ان کے خیالات کا سلسلہ بے ربط تھا اور وہ ٹرمپ پر حملہ کرنے یا وائٹ ہاﺅس میں اپنے ساڑھے تین سالہ دور کا دفاع کرنے میں مسلسل ناکام رہے تھے دستبرداری کے مطالبات کے باوجود ان کی مہم کے نائب مینیجر کوئنٹن فلکس نے صحافیوں کو بتایا کہ ہماری مہم کسی ایسے منظرنامے کے ذریعے کام نہیں کر رہی ہے جہاں بائیڈن پارٹی کے ٹکٹ میں سرفہرست نہ ہوں فلکس نے کہا کہ بائیڈن اگلے ماہ شکاگو میں ہونے والے اپنے قومی کنونشن میں پارٹی کی نامزدگی کو قبول کرنے کے منتظر ہیں کنونشن میں کسی سیاسی محاذ آرائی سے گریز کرنے کیلئے ڈیمو کریٹک پارٹی، ڈیلیگیٹس کے لیے یہ منصوبہ بنا رہی ہے کہ وہ بائیڈن کو اپنے صدارتی امیدوار کے طور پر اگست کے اوائل سے ووٹ دینا شروع کر دیں یعنی کنونشن میں باضابطہ نامزدگی سے دو ہفتے پہلے سے لیکن اگر بائیڈن اس سے پہلے اپنی امیدواری ختم کر دیتے ہیں تو ہیرس کو موثر طریقے سے ڈیموکریٹک اسٹینڈرڈ بیئرر کے طور پرنامزد کیا جا سکتا ہے یا ڈیموکریٹس ایک کھلا کنونشن منعقد کر سکتے ہیں اور متعدد امیدواروں میں سے کسی ایک کی نامزد گی کا انتخاب کر سکتے ہیں زیادہ تر قومی پولز میں ٹرمپ کو بائیڈن پر 1 سے 3 فیصد پوائنٹس کی مسلسل برتری دکھائی گئی ہے اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ انتخابی جنگ کی اہم ریاستوں میں اتنی ہی یا اس سے زیادہ کی سبقت ظاہر ہوتی ہے دونوں امیدواروں کو اگلے سال جنوری سے شروع ہونے والی مزید چار سالہ مدت کے لیے صدارت کے حصول کے لیے ان کلیدی ریاستوں میں جیتنے کی ضرورت ہے.
ڈیموکریٹس خاموشی سے پولنگ میں ہیریس اور ٹرمپ کے درمیان برابری کا جائزہ لے رہے ہیں نائب صدر ہمیشہ تو نہیںلیکن کبھی کبھار بائیڈن سے بہتر حتی کہ ٹرمپ سے قدرے آگے ہوتی ہیں امریکہ کے صدارتی انتخابات کے بارے میں فیصلہ کرنے میں انتہائی معرکہ آرائی والی ریاستیں خاص طور پر اہم ہیں جن کا تعین قومی پاپولر ووٹ سے نہیں ہوتا ہے انتخابات بنیادی طور پر 50 ریاستی مقابلے ہوتے ہیں جس میں جیتنے والا دو ریاستوں کے سوا تمام میں ریاست کے پورے الیکٹورل ووٹ حاصل کر لیتا ہے وہ الیکٹورل ووٹ ریاستوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے مختص کیے جاتے ہیں.
بائیڈن نے 2020 میں قومی سطح پر ٹرمپ کے مقابلے میں 70 لاکھ زیادہ ووٹ حاصل کیے تھے لیکن انہوں نے چار ایسی ریاستوں میں جہاں مقابلہ سخت تھا مجموعی طور پر صرف 123,000 ووٹوں سے کامیابی حاصل کی تھی اگر یہ ریاستیں دوسری طرف جاتیں تو ٹرمپ دوبارہ منتخب ہو چکے ہوتے اس سال کے انتخابات میں بھی چند ریاستوں میں اسی طرح سخت مقابلہ ہونے کی توقع ہے جب کہ متوقع طور پر بائیڈن اور ٹرمپ دونوں کے ووٹوں کے بھاری فرق سے ان ریاستوں کو آسانی سے جیتنے کی توقع ہے جن کے لیے یہ پیش گوئی کی جا سکتی ہے کہ وہ ایک پارٹی یا دوسری پارٹی کو ووٹ دیتی ہیں بار بار یہ اصرار کرنے کے باوجود کہ وہ مقابلے میں شامل رہیں گے بائیڈن نے تین ایسے منظرنامے پیش کیے ہیں جن میں وہ دستبردار ہو سکتے ہیں انہوں نے ایک بار کہا تھا کہ پولنگ کے بدترین نتائج انہیں دستبردار ہونے پر مجبور کر سکتے ہیں اور ایک دوسرے موقع پر انہوں نے کہا کہ وہ اس صورت میں دستبردار ہو جائیں گے اگر ان کی کوئی سنجیدہ نوعیت کی میڈیکل کنڈیشن سامنے آئی اور ڈاکٹرو ں نے انہیں مشورہ دیا تو وہ دستبرداری پر غور کرسکتے ہیںایک اور موقع پر بائیڈن نے جو خود بھی ایک عقیدت مند کیتھولک ہیں نے صحافیوں کو بتایا کہ اگر خدا نے ان سے اپنی مہم ختم کرنے کو کہا تو وہ ختم کر دیں گے.