ہم اپنی زندگی میں کتنے ہی ایسے فیصلے کرتے ہیں، جن پر بعد میں پچھتانا پڑتا ہے۔ دوستوں کی ٹولیاں اور دفاتر کی راہداریاں ہم صرف اس لیے چھوڑ دیتے ہیں کیوں کہ ہم وہاں مس فٹ ہو رہے تھے۔ یقیناً شادی کا رشتہ ان معاشی اور معاشرتی بندھنوں سے بڑھ کر ہے۔ لیکن یہاں اس سے کنارہ کشی کلنک کا ٹیکہ لگوانے جیسا ہے۔
نبھانا ممکن نہ رہے تو بھی عورت طلاق نہیں لے سکتی، کیوں کہ طلاق یافتہ عورت تو منحوس ہوتی ہے۔
کبھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کسی حادثے یا واقعے کی خبر ہمیں اپنی گرفت میں جکڑ لیتی ہے۔ نا چاہتے ہوئے بھی آپ خود کو اس کے متاثرین سے جڑا ہوا محسوس کرتے ہیں۔ ان کا کرب اپنی جان پر یوں محسوس ہوتا ہے، جیسے یہ سب آپ کی نگاہوں کے سامنے وقوع پذیر ہو رہا ہو۔
اس سانحے سے گزرنے والوں کی اس لمحے کیا کیفیت ہوگی؟ زندگی اور مستقبل کے متعلق انھوں نے کیسے کیسے خواب دیکھ رکھے ہوں گے، جو نا تمام ٹھہرے۔
ایسی ہی ایک خبر چند روز پہلے میری نظر سے گزری، جس کے مطابق اسلام آباد کے نواحی علاقے میں گھریلو نا چاقی پر ایک خاتون نے اپنے تین بچوں کو قتل کرنے کے بعد خودکشی کر لی۔ کسی جرم کی کوئی توجیہہ نہیں دی جا سکتی اور ایسے میں کہاں قتل جیسا جرم اور وہ بھی ایک ماں کے ہاتھوں اپنی اولاد کا۔
لیکن ہر تصویر کے دو رُخ ہوتے ہیں۔ اس عورت کا خیال دماغ میں بس کہیں اٹک سا گیا ہے۔ وہ کیا عوامل، خدشات اور عدم تحفظ کی کیفیات ہوں گی، جن کے زیر اثر ایک ماں اس انتہائی اقدام تک اٹھانے پر مجبور ہوئی؟
خاندان معاشرے کی اکائی ہے اور اس کی اساس، شادی کا رشتہ ہے۔ شادی ایک ایسا بندھن ہے، جو دو انسانوں کو زندگی بھر کے لیے ایک کر دیتا ہے۔
دو انسان جو زندگی کے سفر کے لیے ایک ایسے راستے کا انتخاب کرتے ہیں جہاں ان کے مفادات، نفع و نقصان ایک ہو جاتے ہیں۔ اس لیے بجا طور پر کہا جاتا ہے کہ شادی کے لیے جیون ساتھی کا انتخاب زندگی کے اہم ترین فیصلوں میں سے ایک ہے۔
ہمارے یہاں اولین مسئلہ تو عورت کو اپنی زندگی کے ساتھی کے انتخاب سے ہی کھڑا ہو جاتا ہے۔ اگر کہیں گھر کے فیصلہ سازوں میں سے کوئی اس کی رائے لیتا بھی ہے تو اس زعم کے ساتھ کہ ہم تمہارے بھلے کا ہی سوچ رہے ہیں، اس لیے خاموشی کے ساتھ رضامند ہو جاؤ ورنہ نتائج کے لیے تیار رہو۔
کوئی یہ نہیں دیکھتا کہ ایک مکمل اجنبی انسان، ماحول اور جگہ پر ایک نئی زندگی کا آغاز کرتے ہوئے کیسے وسوسے دل میں آتے ہوں گے۔
ہمارے قدامت پسند معاشرے میں مذہبی اور معاشرتی اقدار میں بہت فرق پایا جاتا ہے۔ خواتین پر معاشرتی دباؤ ہوتا ہے کہ وہ اپنے سماجی طبقے اور مذہب و فرقے کے اندر رہ کر شادی کریں۔ ان سے یہ امید کی جاتی ہے کہ وہ معاشرے میں ایک خاص کردار ہی ادا کرنے کو پیدا ہوئی ہیں۔
سو، ان کی ذمہ داری ہے کہ وہ آنکھ بند کر کے اپنے شوہر کی تابعداری کریں اور اپنے لیے حرف شکایت زبان پر نہ لائیں۔ چاہے وہ کوشش مزید تعلیم کے لیے ہو یا پھر معاشی جدوجہد۔ عورت تب ہی ایک اچھی عورت کہلائے گی، جب اپنی ذات کو مار کر شوہر کا حق حکمرانی تسلیم کر لے۔
پھر کسی بھی سفر میں اتار چڑھاؤ، دشواریوں اور نا ہمواریوں کا سامنا ہونا ایک قدرتی امر ہے اور دو مسافروں کا ایک ساتھ سفر جاری رکھنا یا راہیں جدا کر لینا کوئی ایسی انہونی بات بھی نہیں لیکن شادی کا معاملہ بالکل الگ ہے۔
اس میں خاندان محض الگ نہیں ہوتا، یہ صفائی سے کٹتا بھی نہیں، بل کہ یوں ہوتا ہے جیسے کوئی کسی کپڑے کو کسی نوکیلے کیل کی زد میں لا کر کھینچے اور وہ پھٹ جائے۔ اس کے اطراف سے نکلتے ہوئے شکستہ دھاگے ہمیشہ اس درد کی یاد کو تازہ رکھیں۔ بعد میں مصلحتوں اور روایات کے دھاگوں سے چاہے جتنا بھی رفو کر لیا جائے، نشان عمر بھر باقی رہتا ہے۔
اس روایت پرست سماج میں تو معاشرتی اور ثقافتی روایات طلاق اور اس کے بعد کے معاملات کو اور بھی پیچیدہ بنا دیتی ہیں۔
پدر سری ذہنیت جہاں آج بھی عورتوں کی اکثریت بنیادی انسانی حقوق سے آگاہ نہیں۔ ملک کے کم ترقی یافتہ علاقوں کی تو بات ہی کیا، شہروں میں بھی یہ ذہنیت راسخ ہے کہ جہاں بیٹی ایک بوجھ ہے، جس کے پیدا ہوتے ہی اسے سر سے اتارنے کی فکر شروع ہو جاتی ہے۔ ایسے میں سوچیے کہ وہی بیٹی ایک نا کام شادی کے بعد گھر واپسی کی راہ دیکھے تو کس آس پر؟ ایسے میں نا چاہتے ہوئے بھی ایک تکلیف دہ اور سخت نا پسندیدہ تعلق میں بندھے رہنے کے علاوہ اور کیا راستہ لیا جائے؟ اور اگر بیٹی کے ساتھ بچوں کی ذمہ داریاں بھی ہوں تو صورت حال کیا ہوتی ہو گی؟
اس سب کے با وجود اگر شادی کا رشتہ برقرار نہ رہ سکے تو اس کا بوجھ عورت کو ہی اٹھانا ہے۔
طلاق کا کلنک لیے زندگی کی گاڑی کو گھسیٹنے پر مجبور عورت کے لیے با عزت زندگی گزارنے کے لیے کون سے ذرائع میسر ہیں؟ دوسری شادی، اور کیا یہ ممکن ہے؟ ایک دفعہ بیچ منجدھار چھوڑ دیے جانے کے بعد اس کے لیے دوبارہ کسی مرد پر اعتبار کرنا بہت مشکل ہو جاتا ہے اور اگر ایسا کوئی مل بھی جائے تو جو مسائل خاندان اور معاشرے کی مخالفت کی صورت میں اسے جھیلنا پڑتے ہیں، ان کا مداوا کیونکر ممکن ہوگا۔
وہ عورتیں جو معاشی طور پر خود مختار نہیں ہیں، ان کے لیے تمام عمر سر چھپانے کو چھت اور روٹی کے چند نوالوں کے لیے روز مرنے سے ایک ہی دفعہ مر جانا شاید واحد محفوظ راستہ ہو۔
لیکن، میری رائے میں اس کا بہترین حل عورت کی معاشی خود مختاری میں پنہاں ہے۔ خدارا، بیٹیوں کو بوجھ مت سمجھیے۔ اگر آپ انھیں دنیا میں لانے کا سبب بن ہی گئے ہیں تو انھیں زندہ رہنے کے لیے وہ اسباب بھی مہیا کریں جن کی تلاش میں وہ صدیوں سے در بہ در ہیں۔
رخصت کرتے وقت لاکھوں، کروڑوں کا جہیز دینے کی بجائے اگر انھیں بھی بیٹوں کی طرح شروع سے ذرائع معاش چلانے کا کوئی ڈھنگ سکھایا ہو تو وہ بوجھ نہیں بنتیں۔ جہیز کی بجائے رخصت کرتے وقت انھیں جائیداد میں حصہ دیا جائے تو وہ فیصلہ کرنے میں آزاد رہتی ہیں۔ طلاق طلاق طلاق محض تین الفاظ نہیں، وہ گڑھا ہیں جن میں گری ہوئی ایک عورت زندہ درگور ہو جاتی ہے۔
اپنی بیٹیوں کو معاشی خود مختاری کا حق دیجیے، بہ صورت دیگر اخباروں کے پچھلے صفحات پر ایسی خبریں دکھائی دیتی رہیں گی، جو شاید ایک لمحے کے تاسف کے بعد معاشرے کی یاد سے ہمیشہ کے لیے کھرچی جائیں گی۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔