گزشتہ روز لاہور کے ایک بازار میں ایک خاتون پر توہین مذہب کا الزام لگایا گیا۔ اس واقعے کی ویڈیو کل پورے سوشل میڈیا پر گردش کرتی رہی۔ اس ویڈیو میں خاتون کو عربی کیلیگرافی والا ایک ڈیزائنر لباس زیب تن کیے دیکھا جاسکتا ہے۔ خاتون کے ارد گرد لوگوں کا ایک ہجوم جمع ہے اور گرد و نواح اس شور سے گونج رہے ہیں کہ عربی لکھی یہ قمیض پہننا توہین مذہب ہے۔
خاتون اور ان کے شوہر نے ایک دکان میں پناہ لی اور خاتون اپنا چہرہ ہاتھوں میں چھپائے بس اپنے ناکردہ گناہ کی معافی مانگ رہی ہیں۔ یہ خبر چند ہی منٹوں میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی۔ جائے وقوعہ پر سینکڑوں لوگ جمع ہو گئے۔ اس مشتعل ہجوم میں سے کسی کو پرنٹ کردہ الفاظ کا ترجمہ معلوم نہیں تھا مگر وہ چیخ چیخ کر اس خاتون پر توہین مذہب کا الزام عائد کرتے رہے۔
پولیس کی آمد سے مشتعل مجمعے کی جنونیت زرا تھمی اور حالات قابو میں آئے۔ خاتون پولیس آفیسر نے با آواز بلند با رہا یقین دہانی کرائی کہ اگر متعلقہ خاتون واقعی توہین مذہب کی مرتکب پائی گئیں تو قانونی کارروائی کی جائے گی۔ خاتون کو مشکل سے اس مشتعل ہجوم سے بچا کر تھانے لے جایا گیا۔ بعد ازاں ایک معافی کی ویڈیو جاری کی گئی۔ علمائے اکرام نے تصدیق کی کہ یہ الفاظ قرآنی آیات نہیں ہیں۔
ان کے مطابق چونکہ ان خاتون نے کہا کہ و آئنده ایسا لباس نہیں پہنیں گی اس لیے ان کی معافی بھی قبول کر لی گئی ہے۔
تصاویر اور ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوتے ہی سامنے آیا کہ یہ شالک ریاض نامی سعودی برانڈ کا لباس ہے۔ اس طرح کے عربی الفاظ کے ڈیزائن عام ہیں۔ اسی طرح پاکستان میں بھی اب اردو شاعری اور مختلف عبارات کپڑوں پر لکھے جاتے ہیں۔
یہ بات سمجھنا زیادہ مشکل نہیں کہ عربی ایک زبان ہے جو عرب ممالک میں عام لکھی اور پڑھی جاتی ہے۔ ہر زبان کی طرح اس زبان میں بھی شاعری اور موسیقی سے لے کر نازیبا الفاظ تک پائے جاتے ہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ جب لباس دیکھ کر سعودی برانڈ تک پہنچنے کے لیے صرف چند منٹ درکار تھے تو ان الفاظ کا ترجمہ ڈھونڈنے کی زحمت کیوں نہیں کی گئی؟ کیا یہ ممکن ہے کہ سینکڑوں کے ہجوم میں سے کسی کے پاس سمارٹ فون نہ ہو اور فوری ترجمہ نہ ڈھونڈا جاسکتا ہو؟ دلچسپ بات ہے یہ ہے کہ خاتون کے لباس میں سب سے واضح دکھائی دینے والا لفظ “حلوہ” ہے، جس کے معنی حسین خوبصورت اور میٹھے کے ہیں۔
یہ لفظ بذات خود پاکستانیوں کے لیے خاص ناآشنا نہیں ہے لیکن جب سر پر خون سوار ہو تو شاید واقعی عقل پر پردہ پڑ جاتا ہے۔ اب اسے جہالت کہیں یا لاعلمی مگر اس نے ایسی غلط فہمی کو ضرور جنم دیا تھا جو ماضی میں بھی بہت سی جانیں لینے کے باوجود سچائی تک پہنچ پائی تھی۔
کیا ہم نے واقعی ماضی کے تمام واقعات کو بھلا دیا ہے یا ہم کچھ بھی سیکھنے سے عاری ہیں۔
مشتعل ہجوم کے ہاتھوں پوری کالونی جلانے سے لے کر انفرادی قتل تک ہمیں جھنجوڑ نہیں پائے؟ ڈاکٹر اسرار کہتے تھے کہ جب تک ہم اپنی مقدس کتاب کو صرف چوم چوم کر اونچائی یہ رکھنے پر روز دیں گے اور سمجھنے کی کوشش نہیں کریں گے، ہم میں بہتری نہیں آسکتی اور یہ واقعہ بغیر سمجھے جان لیوا عقیدت کی زندہ مثال ہے۔
والدین، اساتذہ اور میڈیا کو آگاہی پر توجہ دینے کی خاص ضرورت ہے کہ بات سمجھے بنا جذبات سے کام لینا بہت خطرناک ہے۔
علماء کو بھی اس سلسلے میں نمایاں کردار ادا کرنا چاہیے کہ جہاں مذہب سے عقیدت کا درس دیا جاتا ہے وہیں صحیح غلط کا شعور بھی انتہائی ضروری ہے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا بھی فرض ہے کہ بے بنیاد الزام عائد کرکے انتشار پھیلانے والوں کے لیے سزا ایسی ہو کہ آئندہ کوئی تحقیق کیے بغیر ایسے واویلا نہ مچا سکے۔
اس واقعے کے بعد خاتون کا معافی مانگنا اور علماء کا قبول کرنا بھی ایک سوالیہ نشان ہے۔
لباس پر اگر لفظ خوبصورت لکھا ہو تو کیا معافی اسے مانگنی چاہیے جس نے زیب تن کر رکھا ہے یا اسے جس نے سمجھے بغیر اسے مقدس آیت تصور کیا اور ایک خطرناک صورتحال پیدا کرنے کا مرتکب ہوا؟ صحیح یا غلط کہنا تو شاید مشکل ہو مگر یہ عقلمندانہ عمل ضرور ہے تاکہ عوام کی تسلی ہو سکے اور خاتون کی زندگی کو محفوظ بنایا جا سکے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے گذشتہ دنوں سوش میڈیا پر ایک ویڈیو میں کسی نے ذکر کیا تھا کہ بنگلہ دیش میں دیواروں کے ساتھ کوڑا کرکٹ پھینکنا اور مردوں کا دیواروں کا بطور بیت الخلا کے استعمال سے اجتناب کے لیے بنگالی میں عبارات ہر جگہ پائی جاتی تھیں مگر عوام خاص خاطر میں نہیں لاتے تھے۔
کسی کو یہ ترکیب سوجھی کہ یہ عبارات عربی میں لکھنا شروع کر دیں اور چند ہی دنوں میں خاطر خوا بہتری دیکھنے کو ملی۔ لہذا اس منطق کو ذہن میں رکھتے ہوئے اپنی جان بچانی چاہیے اور جیسے ان خاتون نے آئندہ ایسا لباس پہنے سے توبہ کی ہے، سب کو ہی کر لینی چاہیے کیونکہ بدقسمتی سے ہمارے ہاں مذہب پر عمل کرنے والوں سے زیادہ مذہب کے نام پر مارنے والے لوگ حاوی ہونے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ جس قدر ممکن ہو خود سمجھیں اپنی اگلی نسل کو سمجھائیں مگر احتیاط علاج سے بہتر ہے سو جان بچے تو لاکھوں پائے۔