عمران خان نے سرکاری عمارتیں جلائے جانے پر تحقیقات کا مطالبہ کردیا ‘آئی ایس پی آر صاحب، میری بات ذرا غور سے سن لیں۔۔۔۔’ عمران خان نے فوج کے ترجمان ادارے کو الزامات کا جواب بھی دے دیا۔

پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چئیرمین عمران خان رہائی کے بعد قوم سے پہلے خطاب میں کہا ہے کہ معزز ججز نے اور اسلام آباد ہائیکورٹ نے جب مجھے بیل دیدی تب بھی یہ باہر مجھے ایم پی او کے تحت گرفتار کرنے کیلئے باہر کھڑی تھے۔

اسلام آباد میں اپنی رہائش گاہ بنی گالہ میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قوم سے کہنا چاہتا ہوں اپنی عدلیہ اور آئین کے ساتھ جڑ کر کھڑے ہوجائیں، یہ مافیا اپنے ذاتی مفاد کے لیے یہ سب کچھ کررہا ہے، عدلیہ نے انہیں روک کر رکھا ہوا ہے اور اب یہ اسی عدلیہ پر واردات کر رہے ہیں۔

عمران خان نے کہا کہ نواز شریف نے جب دو تہائی اکثریت لے لی تو اس نے دیکھا کہ اس کے راستے میں ایک ایماندار دیانتدار چیف جسٹس تھا، تو اس نے اس کو گوارہ نہیں کیا اس نے حملہ کیا سپریم کورٹ پر، دنیا میں کبھی ایسے مناظر رونما نہیں ہوئے کہ ڈنڈے مار کر اس چیف جسٹس کو بھگایا گیا۔ پھر پیسے چلائے، بریف کیس چلائے، جو مافیا کرتا ہے، پیسے خرچ کرتا ہے یا ختم کرتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اس نے آزاد عدلیہ کو تباہ کیا اور جب آزاد عدلیہ جاتی ہے تو اس ملک میں آپ کی آزادی چلی جاتی ہے۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ ایک ہی جگہ ہم انصاف کیلئے جاتے ہیں، اور اللہ کا شکر ہے کہ انہوں نے (عدلیہ نے) مجھے جیل سے بچایا، میرے ووٹرز میرے چاہنے 27 سال تک پرامن رہے ہیں، میں فخر سے کہتا ہوں کہ 27 سال کی سیاست میں ہمیشہ ہم پر امن رہے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ مجھے پچھلے سال کا 25 مئی کبھی نہیں بھولے گا، ہیڈلرز نے پولیس کو پیچھے سے زور لگایا، بعد میں جب پولیس سے پوچھا کہ کیوں یہ حرکتیں کیں تو انہوں نے کہا کہ پیچھے سے آرڈر تھے۔ ’وہ چڑیا گھر سے آرڈر آتے تھے، وہ ہمیں حکم کرتے تھے‘۔

عمران خان نے کہا کہ مجھے جو گولیاں لگیں اس کے اندر جو ’فنکار جو اداکار اس کے اندر تھے مجھے سب کے نام پتا ہیں، اوپر سے لے کر نیچے تک، جتنے ہم سمجھتے ہیں کہ وہ۔۔۔ ایک کا نام جو میں لیتا ہوں اس سے بھی اوپر کا مجھے پتا ہے، گو اہیڈ، گرین لائٹ کس نے دی تھی، کون اوپر دولوگ تھے جنہوں نے اس آدمی کو گرین لائٹ دی تھی، اور پھر ان کے ساتھ وہ جو سولین ملے ہوئے تھے وہ رانا ثناء اللہ اور وہ شہباز شریف‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ہم کراچی میں پارٹی بنا رہے تھے تو ہمیں کہا گیا کہ آپ کو ملیٹنٹ ونگ بنانا پڑے گا کیونکہ ایم کیو ایم کے پاس ملی ٹنٹ ونگ ہے، باقی جماعتوں نے بھی مسلح لوگوں کو رکھا ہوا ہے، آپ بھی رکھیں۔ یہ آج سے 25 سال پہلے کی بات ہے۔

انہوں نے کہا کہ ان کو خوف آیا ہوا ہے کہ الیکشن میں ان کی تباہی ہوجانی ہے ان کا وجود ختم ہوجانا ہے، وہ الیکشن نہیں ہونے دینا چاہتے ہیں، لہٰذا وہ چاہتے ہیں انتشار ہو۔

عمران خان نے کہا کہ لاہور ہائیکورٹ کا فیصلہ تھا کہ سرچ وارنٹ کے ساتھ دو افراد آسکتے ہیں، 45 لوگوں نے میرے گھر پر حملہ کیا توڑ پھوڑ کی، بشریٰ بی بی اکیلی تھیں، سب سے زیادہ غصہ مجھے اس وقت تھا۔

انہوں نے کہا کہ کل سے آج تک مجھے پتا ہی نہیں تھا کہ ہوا کیا ہے، میں حقائق جمع کر رہا تھا، میں سوچ رہا تھا کہ یہ ہوا کیا ہے، ہماری پارٹی میں تو فیملیز آتی ہیں، خواتین آتی ہیں۔ میں نے تو سب کو کہا ہوا ہے کہ انتشار سے بچو۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد کی طرف نکلنے سے پہلے ہی مجھے خبر مل گئی تھی کہ یہ مجھے پکڑنا چاہتے ہیں۔ چلنے سے پہلے میں نے کہا تھا کہ وارنٹ دیں میں چلنے کیلئے تیار ہوں۔

عمران خان نے کہا کہ جو انہوں نے وہاں (عدالت میں) کیا ’فوج نے، رینجرز فوج کا حصہ ہے‘ شیشے توڑ کر اس طرح حملہ کیا جیسے پاکستان کو کوئی بہت بڑا دہشتگرد اندر بیٹھا ہوا تھا۔

انہوں نے سوال اٹھایا کہ رینجراز کا کیا کام تھا ، پولیس کو آنا چاہئیے تھا، فوج کا یہ کام تھا کرنے کیلئے؟

ان کا کہنا تھا کہ جب مجھے گولیاں لگیں تب تو میں نے آئی ایس آئی کے جنرل کا نام لے لیا تھا، تب کیوں نہیں توڑ پھوڑ اور ہنگامہ ہوا۔

انہوں نے کہا کہ میں چاہتا ہوں اس پر مکمل تحقیقات ہوں اور آزاد تحقیقات ہوں، ’میں چاہتا ہوں کہ جو بھی سرکاری بلڈنگز جلائی گئی ہیں ، انویسٹی گیشن ہوں کہ اس کے پیچھے کون تھا‘۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ میں سب چیزوں کے اوپر انکوائری چاہتا ہوں لیکن ان سے نہیں چاہتا، ’میں چاہتا ہوں کہ چیف جسٹس آف سپریم کورٹ آپ اپنے نیچے کوئی پینل بنائیں انڈیپنڈنٹ‘۔ کیونکہ مجھے پتا تھا کہ جنہوں نے مجھے گولیاں ماری ہیں وہ تحقیقات نہیں ہونے دیں گے، یہ آج بھی نہیں ہونے دیں گے، اس لئے انڈیپنڈنٹ انویسٹی گیشن (ازاد تحقیقات) کریں۔ کیونکہ اس میں مجھے جو بڑی بڑی چیزیں پتا چلی ہیں وہ قوم کو بھی پتا چلیں۔

وزیر اعظم کا مزید کہنا تھا کہ ہمارے لوگوں نے توڑ پھوڑ کرنے والوں کو روکنے کی کوشش کی تو ان سے لڑائی کی، شاہ فرمان نے روکا تو اس سے لڑائی کی، شوکت یوسفزئی نے روکنے کی کوشش کی تو اس کے کپڑے پھاڑ دئیے۔

انہوں نے کہا کہ عمران ریاض خان کو اٹھا کر غائب کردیا گیا، مجھے خدشہ ہے اس کے اوپر بھی یہ تشدد کریں گے، وہ ملک چھوڑ کر جارہا تھا اسے خطرہ تھا کہ اس کے ساتھ بھی وہی ہوگا جو ارشد شریف کے ساتھ ہوا۔

سابق وزیراعظم عمران خان کا کہنا تھا کہ ’آئی ایس پی آر صاحب جب میں جیل میں تھا تو آپ نے پیچھے کچھ باتیں کیں، میں ان کا تھوڑا جواب دینا چاہتا ہوں۔ آپ نے سب سے پہلے کہا کہ میں دوغلا ہوں، میں ایک طرف کہتا ہوں فوج میری ہے اور دوسری طرف اس پر تنقید کرتا ہوں برا بھلا کہتا ہوں۔ آپ نے کہا فوج کو کبھی دشمن نے اتنا نقصان نہیں پہنچایا جتنا میں نے پہنچایا، اور تیسرا آپ نے کہا کہ ہم اب کرش کریں گے ان کو‘۔

عمران خان نے کہا کہ ’دیکھیں آئی ایس پی آر صاحب، میری ذرا غور سے بات سن لیں، آپ جب پیدا بھی نہیں نا ہوئے تھے، تب میں اپنے ملک کو دنیا میں رپریسینٹ (نمائندگی) کرتا تھا، میں نے اپنے ملک کا دنیا میں سر اوپر کیا، عزت دلوائی اپنے ملک کو، اٹھا کے دیکھ لیں آپ بھول گئے ہوں گے آپ پیدا نہیں ہوئے ہوں گے پتا چلوا لیں کہ عمران خان نے کیا پاکستان کی عزت دنیا میں اوپر کی ہے یا نیچے کی ہے۔ اور آپ کو پتا ہونا چاہئیے کہ جب وار آن ٹیرر ہوئی اور پاکستان کی مٹی پلید ہوئی دنیا میں، فرمایا گیا جی کہ فوج دوغلی ہے کیونکہ مشرف کا مارشل لاء تھا، یہ ہمارے سے جھوٹ بولتی ہے، کہتی کچھ ہے کرتی کچھ ہے، ڈالرز ہمارے سے لیتی ہے اور دوغلی گیم کھیلتی ہے، ڈبل گیم، دوغلا تب نام استعمال ہوتا تھا، پاکستان کو ورڈ ہی دوغلا استعمال کرتے تھے، ڈبل گیم کا نام کرتے تھے، ذرا انٹرنیشنل میڈیا دیکھیں، کس نے اپنی فوج کو سب سے زیادہ حفاظت کی، کس نے اپنی فوج کے ساتھ انٹرنیشنل میڈیا پر کھڑا ہوا‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’جب اُسامہ بن لادن جب وہ ایبٹ آباد میں جب وہ حادثہ ہوا، آپ کو پتا ہے بیرون ملک پاکستانیوں کے اوپر جو گزری ہے آپ اندازہ نہیں لگا سکتے، انہوں نے کہا ہمارے سے پیسے لے رہے ہیں اور اسی کو اپنی اکیڈمی کے پاس ایبٹ اباد میں پالا ہوا ہے، جو ہمیں ذلت ملی تب، کون بولا آپ کیلئے، یہاں تو تم کو سانپ سونگھ گیا تھا، یہاں تو آرمی چیف کے منہ سے چوں نہیں نکل رہی تھی، یہاں تو کوئی بولتا ہی نہیں تھا، یہاں تو تب پرائم منسٹر گیلانی تھا نہ زرداری، چار پانچ دن سناٹا چھایا ہوا تھا وہ آکے مار کے چلے گئے ہمارے ملک میں ، دنیا میں ذلیل ہوئے ہم۔ میں بولا تھا‘۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’فوج کو لوگ پسند کرتے تھے، جب ایک آرمی چیف نے میری کمر میں تو چاقو مارا، لیکن پاکستان کے بدنام ترین مجرموں کو آکے اوپر بٹھا دیا، تو مجھے بتائیں میری وجہ سے فوج کو برا بھلا کہا گیا یا اس آدمی کی وجہ سے، اس نے کیا سمجھا کہ لوگ ”چونٹیاں“ ہیں، کیا لوگوں میں عقل نہیں ہے، کیا لوگ بیوقوف ہیں کہ جدھر آپ لگائیں گے لگ جائیں گے، کیا لوگ تیس سال سے ان لوگوں کو نہیں جانتے تھے؟ اسی فوج نے جب مجھے آئی ایس آئی نے بریفنگ دی مجھے کہا ہے، اب سے نہیں 25 سال سے سن رہا ہوں کتنا پیسہ یہ چوری کرکے باہر لے کر گئے ہیں، ہمیں جو پراپرٹیز انہوں نے دکھائی ہیں وہ اسے اربوں ڈالرز کے اند پرارٹیز ہیں۔‘

عمران خان نے کہا کہ ’میں نے نہیں برا بھلا کہا فوج کو، جو آرمی چیف کے ایکشنز تھے اس نے اس فوج کو برا کیا ہے‘۔

نہوں نے سوال اٹھایا کہ میمو گیٹ کس نے کیا تھا، کیا حقانی نے جا کے امریکنوں کو نہیں کہا تھا کہ زرداری کہہ رہا ہے مجھے میری فوج سے بچا لو، جب نواز شریف کھٹمنڈو میں مودی سے چھپ کر ملاقات کر رہا ہے کہ میری فوج کو نہ پتا چل جائے، پھر ڈان لیکس میں توثیق کر رہا ہے کہ فوج دہشتگردی کر رہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ آپ ان لوگوں کو اوپر بٹھا دیں اور ہمیں کہیں کہ ہم ان ساروں کو تسلیم کرلیں۔ ہم کچھ کریں تو ہمیں اینٹی اسٹیٹ قرار دے دیں، لیکن آپ سب کچھ ٹھیک کر رہے ہیں۔

انہوں نے مظاہروں کے درمیان ہلاک اور زخمی ہونے والوں کی فمیلیوں کا خیال رکھنے کا اعلان بھی کیا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ کل ساڑھے پانچ بجے، خصوصاً خواتین نے گھر سے باہر نکلنا ہے اور گلی یا گاؤں کے آخر میں ایک پلے کارڈ جس پر ”حقیقی آزادی “ اور ’آئین بچاؤ پاکستان بچاؤ“ لکھا ہو، وہ لے کر صرف ایک گھنٹے کیلئے کھڑے ہونا ہے۔

انکا کہنا تھا کہ اس بدھ سے میں دوبارہ مریدکے سے اپنے جلسوں کی مہم شروع کروں گا۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں