غریب آباد فرنیچر مارکیٹ جو کراچی کی چالیس سالہ پرانی مارکیٹ تھی اسے 13 مارچ بروز ہفتہ ضلع وسطی کے ڈپٹی کمشنر کے زیرنگرانی مسمار کردیا گیا۔
اس ردعمل پرغریب آباد فرنیچر مارکیٹ کمیٹی کے نائب صدر آغا نے آج نیوز کو بتایا کہ ڈی سی صاحب صرف دو گھنٹے کے نوٹس پر غریبوں کا یہ روزگار اجاڑ کر چلے گئے، جبکہ فرنیچر کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کرنا آسان کام نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ یہاں کم از کم 150 کے قریب دکانیں تھیں جو تقریبا 145 میٹر لمبی سرکولر ریلوے کی پٹری کے دونوں اطراف آباد تھیں جو اب مسمار کردی گئی ہیں۔
مارکیٹ کے نائب صدر کا کہنا تھا کہ اس مارکیٹ کے اجڑنے سے کم ازکم 500 لوگ بے روزگار ہوئے اور اگر انکے خاندانوں کوبھی شامل کرلیں تو2500 افراد کی زند گی متاثر ہوئی۔
مارکیٹ میں موجود ایک خریدار بلال نے بتایا کہ اس نے اپنی بڑی بہن کے جہیز کا سامان اسی مارکیٹ سے صرف 70 ہزار روپے میں خریدا تھا ، اور آج جب چھوٹی بہن کی شادی کے لئے فرنیچر خرید نے آیا تو یہاں مارکیئٹ ختم ہوچکی ہے۔
بلال نے بتایا کہ ہم جیسے غریب گھرانوں کے لئے ایسی مارکیٹ کسی نعمت سے کم نہیں، ہمیں ہماری حیثیت کے مطابق کم قیمت میں فرنیچر مل جاتا ہے اور اگر اس طرح کی مارکیٹ نہیں ہوگی تو ہم غریب لوگ تو کسی بڑے شوروم یا بڑی مارکیٹ سے لاکھوں روپے کا فرنیچر نہیں خرید سکتے۔
مارکیٹ کے نائب صدر کا مزید بتایا کہ اس مارکیٹ کو چار سال پہلے بھی اس طرح سے اجاڑا گیا تھا، اور اس وقت کراچی کے میئر وسیم اختر نے یہ یقیں دہانی کراہی تھی کہ ہمیں اس جگہ کا نعم البدل دیا جائے گا۔
نائب صدر کا مزید کہنا تھا کہ جس زمین پر ہماری دکانیں واقع تھیں یہ زمین پاکستان ریلوے کی ہے، چار سال پہلے جب کراچی سرکولر ریلوے کو پھر سے بحال کرنے کی کوشش کی گئی تو ہم سے یہ زمیں خالی کروالی گئی تھی، مگر کراچی سرکولرریلوے کے پروجیکٹ میں تاخیر ہونے کی وجہ سے ہم پھر سے اس جگہ پر آباد ہوگئے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ہمارا پاکستان ریلوے سے زبانی معاہدہ ہوا تھا کہ جب کبھی کراچی سرکولرریلوے کا پروجیکٹ شروع ہوگا تو ہم خود سے اس زمین کو خالی کردیں گے۔
مگر ساتھ ہی پاکستان ریلوے نے ہمیں یہ بھی احکامات دیئے تھے کہ مارکیٹ ضرور بنائیں لیکن ریلوے کی زمین پر کسی قسم کی کنکریٹ ڈویلپمنٹ نہ کریں۔
ایک دکاندار نعمان نے بتایا کہ بروز ہفتہ کو اس کی دکان کو توڑ دیا گیا، جس کی وجہ سے اس کو ڈیرھ لاکھ روپے کا نقصان ہوا اور اب وہ بے روزگار بھی ہے۔
دوسری جانب اس پورے آپریشن کے بارے میں اسسٹنٹ کمشنر لیاقت آباد سارہ امجد کا کہنا تھا کہ یہ پورا آپریشن ڈپٹی کمشنرضلع وسطی طحہ سلیمی کی ہدایت پر ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ مارکیٹ کمیٹی کے صدر کاشف جعفری کو آپریشن سے تین دن پہلے نوٹس دیا تھا کہ جگہ خالی کرنے کے لئے اور کمیٹی صدر کو کئی بار آفس بھی طلب کیا گیا تاکہ اگر ان کے پاس پاکستان ریلوے کی طرف سے کوئی سرکاری آرڈر ہے تو وہ پیش کرے۔