قبرص، نسلی بنیادوں پر تقسیم مقبول سیاحتی جزیرہ

سن 1974 میں بحیرہ روم کے مشرقی حصے میں واقع جزیرے قبرص کے شمالی حصے پر ترکی نے قبضہ کر لیا تھا، جس کے بعد سے یہ جزیرہ نسلی بنیادوں پر تقسیم ہے۔ اس حملے بعد سے یونانی نسل کی آبادی کی اکثریت والے اس جزیرے کا باقی ماندہ دو تہائی جنوبی حصہ جمہوریہ قبرص کہلاتا ہے، جو کہ بین الاقوامی سطح پر ایک تسلیم شدہ ریاست اور یورپی یونین کا رکن ہے۔

لیکن قبرص کے بارے میں آپ اور کیا جانتے ہیں؟

قبرص کی تاریخ، حقیقت و فسانہ

یونانی اساطیر میں قبرص کو محبت کی دیوی ‘افروڈائٹی’ کی جائے پیدائش تصور کیا جاتا ہے۔ اس دیوی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ قدیم شہر پافوس کے کہیں قریب جھاگ سے نمودار ہوئی تھی۔

جغرافیائی لحاظ سے قبرص دنیا کے مشرقی اور مغربی حصے کے سنگم پر واقع ہے۔

آشوریوں سے لے کر برطانیہ تک، کئی سلطنتیں اس پر حملہ آور ہوئیں۔

رومن جنرل مارک انتھونی نے اسے اپنی مصری محبوبہ قلوطرہ کو بطور تحفہ دیا تھا، جب کہ صلیبی جنگوں کے دوران برطانیہ کے بادشاہ ‘رچرڈ دی لائن ہارٹ’ کی جانب سے اسے سفر کے دوران پڑاؤ کے لیے استعمال کیا جاتا تھا۔

سن 1878 میں برطانیہ کے قبرص کا کنٹرول لینے سے پہلے یہ تین سو سال تک سلطنت عثمانیہ کا حصہ رہا۔

پھر یونان کے ساتھ اتحاد کے خواہاں جنگجوؤں کی بغاوت کے بعد 1960ء میں اسے برطانیہ سے آزادی مل گئی تھی۔

قبرص کی تقسیم

سن 1974 میں ترکی نے قبرص پر حملہ کر کے اس کے ایک تہائی شمالی حصے پر قبضہ کر لیا تھا۔ ترکی کی جانب سے یہ کارروائی اس وقت یونان میں حکومت کرنے والی فوجی جنتا کی سرپرستی میں قبرص میں ایک بغاوت کے جواب میں کی گئی تھی۔

ترکی کے اس اقدام کے بعد قبرص میں ایک دہائی تک وہاں اکثریت میں موجود یونانی آبادی اور ترکی اقلیت کے درمیان کشیدگی اور تشدد کا سلسلہ جاری رہا۔ اسی تناظر میں وہاں اقوام متحدہ کے امن فوجی بھی تعینات کر دیے گئے۔

سن 2004 میں جمہوریہ قبرص یورپی یونین کا رکن بنا تھا، 2008ء میں تقسیم شدہ قبرص میں اقوام متحدہ کے تحت امن قائم کرنے کی ایک کوشش کا آغاز بھی ہوا تھا۔

تاہم 2017ء میں یہ عمل بغیر کامیابی کے اختتام پذیر ہو گیا۔

مقبول سیاحتی مقام

قبرص کا موسم اور صاف شفاف پانی والے دلکش ساحل اس کی سیاحوں میں مقبولیت کی ایک وجہ ہیں۔ چناچہ گزشتہ برس 3.8 ملین سیاحوں نے وہاں کا رخ کیا۔

اس جزیرے کی تقسیم سے پہلے اس کے مشرقی ساحل پر واقع فاماگوستا کے شہر میں دنیا کی امیر و شہرت یافتہ شخصیات اکثر آیا کرتی تھیں۔

وہاں امریکی اداکارہ سوفیا لورین کا گھر بھی تھا، جب کہ یہ اداکارہ الزبتھ ٹیلر اور اداکار رچرڈ برٹن کے پسندیدہ سیاحتی مقامات میں شامل تھا۔

پچھلے سال جولائی میں قبرص کے جنوبی ساحل پر یورپ کا اب تک کا سب سے بڑا کسینو ریزورٹ کھولا گیا ہے اور حکام کو توقع ہے کہ اس وجہ سے اس جزیرے کا رخ کرنے والے سیاحوں کی سالانہ تعداد میں تین لاکھ کا اضافہ ہو گا۔

روسی منی لانڈرنگ کا مرکز؟

قبرص میں روسیوں کے بھی بڑی تعداد رہائش پذیر ہے۔ اس تناظر میں یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ قبرص روسیوں کی جانب سے منی لانڈرنگ کا مرکز رہا ہے، جہاں امیر روسی افراد مغربی ممالک کی جانب سے عائد پابندیوں سے بچ پا رہے ہیں۔ تاہم قبرص میں حکام نے ان افراد پر کریک ڈاؤن کیا ہے، جو امریکہ اور برطانیہ کے مطابق یوکرین جنگ کے بعد لگائی گئی مغربی پابندیوں سے بچنے میں روسی افراد کی مدد کر رہے ہیں۔

شامی مہاجرین کی آمد

قبرص 2011ء میں شام میں خانہ جنگی کے بعد سے شامی مہاجرین کی بڑی تعداد میں یورپ آمد سے بھی متاثر ہوا ہے۔ یورپی یونین کے اعداد و شمار کے مطابق اس بلاک کے رکن ممالک میں مہاجرین کی تعداد کے لحاظ سے پناہ کی پہلی مرتبہ جمع ہونے والی درخواستیں سب سے زیادہ قبرص میں جمع کی گئی ہیں۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں