میانمار فوج کی جانب سے کیےجانے والے فضائی حملے کے نتیجے میں 80 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی اور دیگر عالمی خبر رساں اداروں کے مطابق فوج نے جاری خانہ جنگی کے دوران اب تک کی سب سے بدترین کارروائی کی ہے جس میں ہلاک ہونے والے 80 افراد کی نعشیں جمع کی جا چکی ہیں جب کہ ان میں مزید اضافے کا بھی خدشہ ہے۔
اقوام متحدہ نے میانمار کے شمال مغرب کے ایک گاؤں میں ہونے والی فوجی فضائی کارروائی کی شدید مذمت کی ہے۔
فروری 2021 میں اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد سے میانمار کی فوج نے مخالفین کے خلاف اپنی کارروائیوں میں مزید تیزی پیدا کردی ہے۔
میانمار کی فوجی حکومت کے ترجمان جنرل زا من تن نے سرکاری ٹی وی پر کی جانے والی فوجی کارروائی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہاں! ہم نے کارروائی کی ہے، مذکورہ گاؤں پر حملہ کرنے کا انتخاب اس لیے کیا تھا کیونکہ گاؤں میں مقامی رضاکار دفاعی فورس کے دفتر کے افتتاح کے موقع پر ایک تقریب منعقد کی جا رہی تھی۔
یاد رہے کہ میانمار کی فوجی حکومت کی مخالف پیپلز ڈیفنس فورس مختلف علاقوں میں فوجی حکومت کے خلاف جنگ کی مہم چلا رہی ہے۔
بی بی سی کے مطابق متاثرہ گاؤں کے رہائشیوں کا کہنا ہے کہ گزشتہ روز جب کمیونٹی رہنما ایک مقامی ہال میں ملاقات کر رہے تھے تو فوجی ہیلی کاپٹر نے براہ راست ہال پر بم پھینک دیا، جب لاشوں کو نکالا جا رہا تھا تو ان پر بھی ہیلی کاپٹر کے ذریعے فائرنگ شروع کردی گئی۔
رہائشیوں کے مطابق انہوں نے ہلاکتوں کی تعداد معلوم کرنے کی کوشش کی لیکن اکثر لوگوں کی نعشیں کئی حصوں میں تقسیم ہو چکی تھیں جس کی وجہ سے گنتی میں مشکلات درپیش تھیں۔
ادھر اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ہائی کمشنر وولکر ترک نے کہا ہے کہ دشمنی کے دوران شہریوں کی حفاظت کے لیے فوج کی کارروائی بین الاقوامی قوانین کی صریحاً خلاف ورزی ہے، اس بات کو تسلیم کرنے کے لیے زمینی حقائق موجود ہیں کہ فوج اور اس سے منسلک ادارے یکم فروری 2021 سے انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں اور زیادتیوں کے ذمہ دار ہیں۔
اقوام متحدہ کے مطابق خانہ جنگی میں ہزاروں افراد ہلاک اور 14 لاکھ بے گھر ہوچکے ہیں جب کہ ملک کے ایک تہائی آبادی کو انسانی امداد کی ضرورت ہے۔
فوجی حکومت کے بعد بنائی گئی جلاوطن قومی اتحاد حکومت نے کہا کہ اکتوبر 2021 سے ستمبر 2022 تک ان حملوں میں 155 عام شہری قتل ہوچکے ہیں۔