فیصل آباد ورلڈ بینک کے مطابق 2050ء میں پاکستان کا شمار دنیا کی دس بڑی معیشتوں میں ہوگا اس لئے ملائیشیا پاکستان کے ساتھ فری ٹریڈ ایگریمنٹ کے تحت اپنی دو طرفہ تجارت کو 1.8سے 10ارب ڈالر تک بڑھانے کیلئے کوشاں ہے۔ یہ بات ملائیشیا کے ہائی کمشنر محمد اظہر بن مزلان نے آج فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری میں بزنس کمیونٹی سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔
انہوں نے دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات پر اطمینان کا اظہار کیا مگر کہا کہ ان بردارانہ تعلقات سے بھر پور معاشی فائدہ اٹھانے کی ضرورت ہے اور اس سلسلہ میں دونوں ملکوں کی بزنس کمیونٹی کو کلیدی کردار ادا کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات 1957ء میں قائم ہوئے
دونوں ملکوں کے عوام ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں یہی وجہ ہے کہ تقریباً50ہزار سے زائد پاکستانی اس وقت بھی ملائیشیا میں خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ پاکستان اور ملائیشیا کے درمیان دو طرفہ تجارت کا حجم 1.8 ارب ڈالر ہے تاہم ایک نمبر پر انڈیا، دوسرے نمبر پر بنگلہ دیش جبکہ پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔ ملائیشیا پاکستان کو پام آئل ، کیمیکلز اور الیکٹریکل آئٹمز وغیرہ برآمد کر رہا ہے جبکہ پاکستان ملائیشیا کو کیمیکلز کے علاوہ پھل اور سبزیاں برآمد کر رہا ہے۔ حال میں ہی پاکستان نے ملائیشیا کو آم برآمد کرنے کا سلسلہ شروع کیا ہے اور اس سلسلہ میں کوالالمپور میں مینگو فیسٹیول بھی لگایا گیا ۔
انہوں نے کہا کہ مسلمان ملک ہونے کے ناطے ہمیں حلال صنعت کے فروغ کیلئے باہمی تعاون کو فروغ دینا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ تین ٹریلین کی عالمی حلال منڈی سے ہمیں بھر پور فائدہ اٹھانا ہوگا۔ مشرق وسطیٰ اور مشرق بعید سے قریب ہونے کی وجہ سے پاکستان اِن منڈیوں کو براہ راست حلال مصنوعات برآمد کر سکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملائیشیا بھی حلال مصنوعات پر کام کر رہا ہے۔
اس نے حلال آئس کریم اور حلال چاکلیٹ متعارف کرائی ہیں جو نہ صرف مسلم بلکہ غیر مسلم ممالک میں بھی بے حد مقبول ہیں۔ انہوں نے حلال مالیاتی نظام کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ وہ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ دو طرفہ تجارت کو دونوں ملکوں کے فائدہ کیلئے ہونا چاہیے ۔ انہوں نے کہا کہ ملائیشیا سمیت دس ممالک آسیان بلاک کا حصہ ہیں جن کا مجموعی جی ڈی پی 2.9ٹریلین اور آبادی 647ملین ہے۔
انہوں نے کہا کہ چونکہ ملائیشیا آسیان ملکوں کے عین وسط میں واقع ہے اس لئے یہاں سے دیگر ملکوں کو بھی برآمدات کی جا سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ کوالالمپور کی آبادی صرف 3ملین ہے جو فیصل آباد سے بہت کم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملائیشیا اپنی خوراک کی زیادہ تر ضروریات درآمدات سے پوری کرتا ہے ۔ مرغی اور انڈے کے علاوہ ہم برازیل ، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ سے بڑا گوشت بھی درآمد کر رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ حال میں ہی ایک پاکستانی کمپنی کے ذریعے بھی حلال گوشت درآمد کیا گیا۔ فیصل آباد 1898ء میں برطانیہ نے منڈی ٹائون کے طور پر قائم کیا تھا جو آج آبادی کے حوالے سے ملک کا تیسرا اور صنعتوں کے حوالے سے دوسر ا بڑا شہر بن چکا ہے۔ اگرچہ ہماری برآمدات میں ٹیکسٹائل کا کلیدی کردار ہے مگر اس کے علاوہ دیگر شعبے بھی تیزی سے ترقی کر رہے ہیں۔
فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری کے حوالے سے انہوں نے بتایا کہ اس کے ممبروں کی تعداد 8300ہے جو صنعت و تجارت کے 118مختلف سیکٹرز اور سب سیکٹرز کی نمائند گی کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ چیمبر کی اہم ذمہ داری بزنس ایڈووکیسی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ دونوں ملکوں میں 2007ء میں فری ٹریڈ ایگریمنٹ ہوا مگر تاحال اس سے پوری طرح فائدہ نہیں اٹھایا جا سکا۔
انہوں نے یقین دلایا کہ وہ ایگریمنٹ کے تحت برآمدات کی جانے والی اشیاء کی فہرست چیمبر کے ممبروں میں سر کولیٹ کریں گے۔ انہوں نے دونوں ملکوں میں رابطوں کو بڑھانے کیلئے ثقافتی وفود کے تبادلوں کی تجویز بھی پیش کی۔ صدر چیمبر نے کہا کہ ملائیشیا کی معیشت مکمل طور پر ریگولیٹڈ ہے اِس لئے وہاں سرمایہ کاری کرنے سے قبل اس ملک کے طریقہ کار کو سمجھنا ضروری ہے۔
سوال و جواب کی نشست میں سینئر نائب صدر ڈاکٹر سجاد ارشد، نائب صدر حاجی محمد اسلم بھلی، ایگزیکٹو ممبر محمد اظہر چوہدری، میاں محمد طیب، شیخ محمد فاضل، ریحان نسیم بھراڑہ اور سرفرا ز سلیمی نے حصہ لیا۔ آخر میں صدر ڈاکٹر خرم طارق نے ملائیشیا کے ہائی کمشنر محمد اظہر بن مزلان کو فیصل آباد چیمبر آف کامرس اینڈانڈسٹری کی اعزازی شیلڈ پیش کی جبکہ ہائی کمشنر نے فیصل آباد چیمبرکی مہمانوں کی کتاب میں اپنے تاثرات بھی درج کئے ۔