18 ہزار 887 ارب روپے کے وفاقی بجٹ میں عام شہریوں پر ٹیکس کا بوجھ بڑھا دیا گیا ہے۔ اقتصادی ماہرین اس بجٹ کو عام شہری کے لیے ‘مشکل ترین بجٹ‘ قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بجٹ میں ان طبقوں کو ایک بار پھر نظر انداز کیا گیا ہے، جو کئی دہائیوں سے ٹیکس چھوٹ کے مزے لوٹ رہے ہیں۔
پاکستانی الیکشن: مبینہ بےضابطگیوں کی تفتیش کا امریکی مطالبہ
پاکستان نے بھارت کی نئی حکومت کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھا دیا
پاکستان کے پہلے ہیومن مِلک بینک کو کام کرنے سے روک دیا گیا
کیا اورنج ٹرین پاکستان میں ثقافتی انقلاب لا سکتی ہے؟
نیا پاکستانی بجٹ: جون 2025 تک 13 ٹریلین روپے آمدنی کا ہدف
پاکستان میں وفاقی بجٹ کی منظوری کے ساتھ ہی ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے۔
تنخواہ دار طبقے پر بڑھائے گئے ٹیکسز سے آنے والے دنوں میں کئی شعبے متاثر ہونے جا رہے ہیں۔ معاشی امور کے تجزیہ کار اور سینئر صحافی حارث ضمیر نے ڈوئچے ویلے اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ وفاقی حکومت نے بجٹ میں کئی ایسے اقدامات کیے ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ عوام پر شب خون مارا گیا ہے۔ مہنگائی کے مارے عوام کو اب ہر چیز پر اضافی ٹیکس ادا کرنا ہو گا۔
انہوں نےکہا کہ اس سے لوگ براہ راست متاثر ہوں گے کیونکہ اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔ ملک میں اب تعلیم اور ہوائی سفر بھی آسان نہیں ہو گا۔ یکم جولائی سے اس پر بھاری ٹیکس لاگو ہو گا۔
حارث ضمیر نے کہا کہ حکومت نے روز مرہ استعمال کی اشیاء کے علاوہ اسٹیشنری پر بھی ٹیکس لگایا، جس سے تعلیم کا حصول بھی مشکل ہو جائے گا۔ نئے ٹیکسز کے بعد اسٹیشنری کا سامان مہنگا ہو گا اور اسکول کالجز میں تعلیم حاصل کرنے والوں کو بھی مشکلات پیش آئیں گی۔
اسی طرح ہوا بازی کے شعبے میں اکانومی کلاس، فرسٹ کلاس اور بزنس کلاس پر اضافی ٹیکس لگایا گیا ہے۔ ان ٹیکسز کے بعد لوگ ملک سے ہوائی جہاز کا ٹکٹ بک کرانے کے بجائے دیگر ممالک سے ٹکٹ کی بکنگ کو ترجیح دیں گے اور ملک میں ٹریول ایجنسیوں کا کاروبار کرنے والے بری طرح متاثر ہوں گے۔
حارث ضمیر کے بقول حکومت نے اپنے اخراجات کم کرنے کے بجائے تنخواہ دار طبقے پر مزید بوجھ ڈال دیا ہے۔
معاشی امور کے ماہر خرم حسین کے مطابق پاکستان میں ایسا بجٹ پیش کیا گیا ہے، جس سے آنے والے دنوں میں معاشی صورتحال مزید خراب ہو گی۔ ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو اپنے اخراجات میں کمی کرنے کی ضرورت ہے۔ ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جس سے آمدنی بڑھائی جائے اور اخراجات میں کمی کی جائے۔ کئی ایسے شعبے ملک میں فعال ہیں جن پر توجہ دی جائے تو اچھی آمدنی حاصل کی جا سکتی ہے۔
‘لیکن حکومت کی ترجیح تنخواہ دار طبقے کو مزید بوجھ تلے دبانے کی ہے۔‘
پاکستان میں وفاقی بجٹ میں کن نئے ٹیکسز کا اضافہ کیا گیا ہے؟
حکومت نے مالی سال 2025 کے وفاقی بجٹ میں پیٹرولیم لیوی کو موجودہ 60 روپے فی لیٹر سے بڑھا کر 80 روپے فی لیٹر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد ملک میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔
وزارت دفاع کے 2149 ارب 82 کروڑ روپے سے زائد کے 4 مطالبات منظور کیے، انٹیلی جنس بیورو کا 18 ارب 32 کروڑ روپے سے زائد کا مطالبہ جب کہ اسلام آباد کی ضلعی عدالتوں کے لیے ایک ارب 36 کروڑ روپے سے زائد کا مطالبہ بھی منظور کر لیا گیا۔
ہوا بازی ڈویژن کے 26 ارب 17 کروڑ کے 3 مطالبات زر جبکہ موسمیاتی تبدیلی کے 7 ارب 26 کروڑ 72 لاکھ کے 2مطالبات زر بھی منظور کیے گئے۔
وزارت تجارت کے 22 ارب 73 کروڑ 57 لاکھ روپےکے 2 مطالبات زر، مواصلات ڈویژن کے 65 ارب 31 کروڑ 50 لاکھ 59 ہزار کے 4 مطالبات زر، دفاعی پیداوار ڈویژن کے 4 ارب 87 کروڑ 9 لاکھ 50 ہزار روپے کے 2 مطالبات زر منظور کیے۔
مہنگائی، بجلی اور گیس کی لوڈشیڈنگ کے ستائے شہریوں نے وفاقی بجٹ کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ حکومت ‘اپنی عیاشیاں پوری کرنے کے لیے ہم پر آئے روز نت نئے ٹیکسز لگا رہی ہے‘۔
کراچی اولڈ سٹی ایریا کے رہائشی محمد معین نے کہا ”روز روز ٹکڑوں میں تکلیف دینے کے بجائے حکومت ایک ہی بار عوام پر بم گرا دے تاکہ یہ روز روز کے تماشے ختم ہوں۔‘‘
بنارس ٹاون کے رہائشی عبدالرحمان کا کہنا تھا، ”بجلی اور گیس کے بلوں اور دو وقت کی روٹی کے حصول کے لیے جنگ کرتا تنخواہ دار طبقہ کب تک اشرافیا کی عیاشیوں کا بوجھ اٹھائے گا؟‘‘ ان کا کہنا تھا کہ اب تو یہ سوچنا ہوگا کے چار بچوں میں سے کتنوں کو تعلیم دلوائیں؟ جہاں ہر چیز پر ٹیکس لگایا گیا ہے، وہیں تعلیم کو بھی مشکل بنا دیا گیا ہے۔