پاکستان: گھر کے کھانوں کا کاروبار اتنا مقبول کیوں ہو رہا ہے؟

مناسب پیسوں میں صاف ستھرا اور تازہ کھانا ایسا خواب ہے جو بڑے شہروں میں مشکل سے پورا ہو پاتا ہے، جہاں تیز مصالحے اور ناقص آئل میں بنی بدذائقہ غذا کھانے کے بعد شدت سے ’گھر کا کھانا‘ یاد آتا ہے۔ خاندانوں کے بغیر رہنے والے ملازمت پیشہ افراد اور طلبہ تو اکثر ایسے ڈھابوں سے مایوس لوٹتے ہیں۔

کھانا مانگنے والی بچی کو اڑتیس برس تک غلام بنا کر رکھا گیا

پاکستان کے بڑے شہروں میں چھوٹے اور متوسط طبقے کے ملازمین اور طلبہ کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا ہے، جو بڑھتی ہوئی مہنگائی میں کم سے کم پیسوں میں بھوک مٹانے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسے میں ڈھابوں اور سستے ہوٹلوں کی ناقص صفائی، بدبودار ماحول اور غیر معیاری باسی غذا نہ صرف ذہنی کوفت بلکہ صحت کے سنجیدہ مسائل کا بھی باعث بن رہی ہے۔

نئی دہلی میں بے گھر مزدوروں کی مشکلات، خوراک کی قلت

ایسے افراد کی غذائی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے بڑے شہروں میں اب ہوم شیف کا رجحان تیزی سے مقبول ہو رہا ہے۔ ہوم شیف یا گھر کا کھانا دراصل ایک چھوٹے درجے کا کاروبار ہے، جس میں عموماً خواتین گھر میں کھانا تیار کرتی ہیں اور ٹیک اوے یا ہوم ڈیلیوری کے ذریعے صارفین تک پہنچایا جاتا ہے۔

‘کاش یہ کام پہلے شروع کیا ہوتا!’

پندرہ برس تک میڈیا کے مختلف اداروں میں کام کرنے بعد تحریم فاطمہ نے حال ہی میں ’رسوئی گھر‘ کے نام سے گھر میں پکے کھانے کی سروس شروع کی ہے۔

’پناہ دینے کا شکریہ، میری طرف سے کھانا مفت کھائیے‘

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”مجھے ہمیشہ سے کھانا بنانے کا شوق رہا لیکن میڈیا میں جاب مل گئی تو یہ شوق پیچھے رہ گیا۔

کورونا کے بعد میں بھی ڈاؤن سائزنگ کی زد میں آئی اور مالی مشکلات بڑھتی گئیں۔ مشکل وقت میں میرا شوق کام آیا اور میں نے اسے کاروبار میں ڈھالنے کا فیصلہ کیا۔”

جرمنی میں بے گھر افراد اور شدید سردی کی لہر

وہ کہتی ہیں، ”اب آ کر احساس ہوا کہ کاش یہ کام پہلے شروع کیا ہوتا۔ مجھے لگتا ہے یہ خواتین کے لیے بہترین کاروباری مواقع میں سے ایک ہے، بہت گنجائش ہے۔

اس کے لیے لمبی چوڑی انویسٹمنٹ نہیں چاہیے۔ ایسا ہو ہی نہیں سکتا کہ آپ بڑے شہروں میں گھر کا معیاری کھانا فراہم کریں اور اسے پذیرائی نہ ملے۔”

لاہور میں ایچ اینڈ ایچ کے نام سے گھر کا کچن چلانے والی حمیرا اسلم ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتی ہیں کہ ”میں اپنی چھوٹی بیٹی کے ساتھ بھائی کے گھر میں رہتی ہوں۔ سوچا ذریعہ آمدن نہ ہوا تو بیٹی کی زندگی سماجی و مالی پریشر میں گزرے گی۔

پانچ سال پہلے گھر سے کھانا تیار کر کے دفتروں میں دینا شروع کیا۔ اب شکر ہے گھر اور بیٹی کا خرچ نکل آتا ہے، کام کے لیے معاون رکھے ہیں ان کو بھی چار پیسے بچ جاتے ہیں۔ ہمارے پاس تقریباً پچاس مستقل گاہک ہیں جو دوپہر اور رات کا کھانا ہم سے لیتے ہیں اور ماہانہ 12 ہزار ادا کرتے ہیں۔ کھانا ایک مینیو کے مطابق تیار ہوتا ہے۔”

پیئنگ گیسٹ سے ہوم شیف کا رجحان

صحافی اور مصنف احمد اعجاز گذشتہ بیس برس سے اسلام آباد میں رہائش پذیر ہیں۔

ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں، ”پہلے بڑے شہروں میں آبادی اتنی زیادہ نہیں تھی، جن لوگوں کو ملازمتیں ملتیں انہیں بالعموم رہائش بھی مل جایا کرتی تھی۔ یہ زیادہ تر مڈل یا لوئر مڈل کلاس کے ملازمت پیشہ افراد ہوتے جو اپنے ساتھ کسی نہ کسی کو پیئنگ گیسٹ کے طور پر رکھ لیتے اور ماہانہ معمولی رقم کے بدلے رہائش اور کھانا مہیا کرتے۔

اب آبادی میں اضافے اور عدم اعتماد کی مجموعی فضا میں پیئنگ گیسٹ کا کلچر ختم ہو گیا۔”

وہ کہتے ہیں، ”بڑے شہروں میں گرین بیلٹس پر چھوٹے چھوٹے ڈھابے تھے، جو بیشتر تجاوزات کے خلاف آپریشن میں گرا دیے گئے۔ اس کی وجہ سے طلبہ، مزدوروں اور چھوٹی ملازمتوں والے افراد کے لیے کھانے پینے کے شدید مسائل پیدا ہوئے۔ یہ وہ خلا ہے جو گذشتہ چھ سات برس میں پیدا ہوا اور ہوم شیف اسے پورا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

دفتروں کے باہر کوئی دال چاول والا نظر آ جائے گا، جس نے گھر سے کھانا تیار کروایا، آیا اور دو چار گھنٹے میں بیچ کر چلا گیا۔ فلیٹوں میں رہنے والے افراد میں سے کچھ کی خواتین کھانا تیار کرتی ہیں اور دوپہر یا شام کو حسب ضرورت آس پاس کے رہائشیوں کو فراہم کر دیتی ہیں۔ “چونکہ یہ ابھی چھوٹے پیمانے پر چل رہا ہے اس لیے زیادہ منظم نہیں لیکن کوئی شک نہیں کہ روز بروز اس رجحان میں اضافہ ہو رہا ہے۔

گھر کے کھانے کا معیار اور مقبولیت کی وجوہات

احمد اعجاز کہتے ہیں کہ بہت سی وجوہات ہیں کہ ایسا کھانا ہٹس وغیرہ سے زیادہ صحت مند اور معیاری ہوتا ہے۔ ”ڈھابوں اور چھوٹے موٹے ہوٹل والے افراد کھانا بنانے میں ماہر نہیں ہوتے، بس اور کوئی کام نہیں تو چھپر ڈال کر ہوٹل شروع کر دیا۔ یہ لوگ ذائقہ بڑھانے کے لیے آئل اور گھی کا بے تحاشا استعمال کرتے ہیں۔

چونکہ یہ انتہائی ناقص اور سستا گھی استعمال کرتے ہیں اس لیے صحت کے شدید مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ یہ صفائی کا بالکل خیال نہیں رکھتے، ایک ہی ٹب پانی کا ہے جس میں سارا دن برتن بار بار دھوئے جاتے ہیں۔ اس لیے ان کی نسبت گھر کا کھانا صاف اور بہتر ہی ہوتا ہے، اسی لیے یہ زیادہ مقبول ہو رہا ہے۔”

تحریم فاطمہ کہتی ہیں، ”گھر کا کھانے بنانے والوں کے پاس اتفاقیہ گاہک نہیں آتا کہ کوئی وہاں سے گزر رہا، اسے بھوک لگی ہے تو اس نے سوچا کھاتا جاؤں۔

ہمارے پاس تشہیری مہم چلانے کے زرائع بھی نہیں۔ ہمیں پتہ ہے کہ کھانا اچھا ہو گا تو کوئی لے گا اور پھر دوسروں کو بتائے گا، یوں نئے گاہک بنیں گے۔”

حمیرا اسلم کہتی ہیں، ”اب تو آن لائن ریٹنگ سسٹم اور کومنٹس باکس ہے جو اس بات کا تعین کرتا ہے کہ سرچ انجن ہماری رسائی کتنے لوگوں تک بنائے گا۔ اس لیے اچھا کھانا فراہم کرنا ہماری مجبوری ہے۔

گھر سے تیار ہونے والا کھانا محض دو وقت کی روٹی اور دال چاول تک محدود نہیں بلکہ بعض لوگ کیک، پیسٹری اور براؤنیز وغیرہ بھی تیار کرنے لگے ہیں۔

اگرچہ یہ چھوٹا سا گھریلو کاروبار ہے مگر اس میں ترقی کے بے پناہ مواقع ہیں۔ کراچی سے کام کرنے والی ’ہوم شیف ڈاٹ پی کے‘ میں تقریباً 100 سے زائد شیف کام کر رہے ہیں جو روزانہ بیس سے زائد قسم کے کھانے تیار کرتے ہیں۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں