وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ آئین توڑنے والوں کیخلاف آرٹیکل 6لگانا چاہیے، تحریک انصاف کے اقدام کی حمایت کرتا ہوں، ایوب خان نے پہلا مارشل لا لگایا، آغاز وہاں سے ہونا چاہیے، سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری نے عدم اعتماد کی رات آئین توڑا وہاں پر بھی آرٹیکل6 لگنا چاہیے ، اپوزیشن کے فرنٹ پر موجود لوگ مجلس شوریٰ اور مشرف کے ساتھ بھی تھے، ضیا الحق کا ساتھ دینے پر ہم معافی مانگ چکے ہیں، ان لوگوں کو خود نہیں پتہ یہ کہاں کہاں تھے۔
قومی اسمبلی اجلاس میں خواجہ آصف نے کہا کہ اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے آرٹیکل چھ کا بڑا ذکر کیا، پی ٹی آئی کی کابینہ نے میرے خلاف آرٹیکل چھ لگانے کا فیصلہ کیا۔
انہوں نے کہا کہ میں آئین کی خلاف ورزی کرنے والوں پر آرٹیکل چھ لگانے کی حمایت کرنا ہوں۔عدم اعتماد کے وقت آئین کو ختم کیا گیا پھر اس پر آرٹیکل چھ لگانا چاہیے۔
وزیر دفاع کا کہنا تھا کہ ابھی تو ابتدا ہوئی ہے،ابھی تو پوری رات باقی ہے، آغاز پر ہی اپوزیشن کو مرچیں لگ رہی ہیں، وزیر دفاع خواجہ آصف کی تقریر کے دوران اپوزیشن جماعت سنی اتحاد کونسل کے اراکین اپنی نشستوں پر کھڑے ہوگئے اور شدید احتجاج اور نعرے بازی کی جب کہ اسپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے انہیں خاموش رہنے کی تاکید کر تے رہے۔
سپیکر ایاز صادق بار بار ممبران اسمبلی کو متنبہ کرتے رہے کہ وہ نعرے اور ہلڑ بازی سے گریز کریں۔انہوں نے وارننگ دیتے ہوئے کہا کہ سب کو اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھ کر ایک دوسرے کی بات سننی چاہیے،لیڈر آف دی اپوزیشن کے تقریر کے دوران کوئی نہیں بولا تھا لہذا اب اپوزیشن اراکین بھی خاموشی سے تقریر سنیں۔
بیرسٹر گوہرعلی خان اپنی نشست پر کھڑے ہو گئے اور انہوں نے سپیکر سے کہا کہ وہ پوائنٹ آف آرڈر پر بات کرنا چاہتے ہیں جس پر سپیکر نے سختی سے ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ اپنی نشست پر بیٹھ جائیں۔
انہوں نے کہا کہ عامر ڈوگر صاحب بزنس ایڈوائزری میں طے ہوا تھا کہ اجلاس اچھی طرح چلائیں گے۔ایاز صادق نے کہا کہ اگر احتجاج جاری رہا تو اجلاس دو دن کے لئے ملتوی کردوں گا، پھر ایک دن اجلاس کی کارروائی چلا کر صدارتی خطاب پر بحث ختم کردوں گا، اب میں پوائنٹ آف آرڈر مائیک نہیں دوں گا اور خواجہ آصف کے پاس ہی مائیک رہے گا۔
خواجہ آصف نے سپیکر سے شکوہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ جانبدار ہیں۔اپوزیشن کے ممبران جب بات کرتے ہیں تو ہم انہیں توجہ سے سنتے ہیں۔انہوں نے سپیکر سے کہا کہ ایوان کو ضابطے کے تحت چلایا جائے۔
خواجہ اصف نے کہا کہ اپوزیشن کے ارکان ہمارا استحقاق مجروح کر رہے ہیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ گیلریوں میں جو لوگ لائے جاتے ہیں انہیں تحریک انصاف لے کر آتی ہے۔ پارلیمانی گیلریوں میں لوگ کس طرح گھس جاتے ہیں۔ہمارے خلاف وہ نعرے بازی کرتے ہیں۔15 سے 20 پاسز کیسے جاری ہو جاتے ہیں۔
انہوں نے سپیکر سے کہا کہ ہاؤس کو کیسے چلایا جا رہا ہے۔انہوں نے سابق سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ میں اپنے باپ سے بھی معافی نہیں مانگتا ہوں۔
انہوں نے کہا کہ شیر افضل مروت نے مجھ سے ملاقات کی تھی جس کے بعد اس کو پارٹی سے نکال دیا گیا ہے ۔اپوزیشن جماعت آج تک یہ فیصلہ نہیں کر سکی کہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا چیئرمین کون ہوگا۔اپوزیشن کو یہ پتہ ہی نہیں کہ ان کا لیڈر کون ہے۔
انہوں نے کہا کہ میری ساری تقریر حذف کر دیں، کیا میری ساری تقریر حذف کریں گے خواجہ آصف نے کہا کہ ان کے لیڈر عمران خان کو کلمہ بھی صحیح نہیں آتا تھا، ان کے متضاد بیانات ہوتے ہیں۔
انہوں نے سپیکر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ان سے پوچھیں کہ ان کے لیڈر کون ہیں۔یہ بار بار درود شریف پڑھتے ہیں اور پھر جھوٹ بولتے ہیں۔۔عمران خان کی موجودگی میں آئی ایس آ ئی ہمیں بریفنگ دیتی رہی ہے۔اپوزیشن نے مطالبہ کیا کہ وزیر دفاع خواجہ آصف اپنے ریمارکس پر معافی مانگیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ میں نے ایسا کون سا بیان دیا ہے کہ معافی مانگو ں سب حقائق پیش کر رہا ہو ں۔
انہوں نے کہا کہ یہ نو مئی کے ذمہ دار ہیں کور کمانڈرہاؤس پر حملہ کیا گیا ہے فوج پر حملہ کیا گیا میں ان سے کیوں معافی مانگوں گا میں مر جاؤ ں گا لیکن ان سے معافی نہیں مانگوں گا۔حکومتی اراکین نے ڈیسک بجاکر انکی حمایت کی۔