افغانستان کی وزارت خارجہ کا کہنا ہے کہ چین کے صدر شی جن پنگ نے بیجنگ میں ایک خصوصی تقریب میں طالبان کے سفیر مولوی اسد اللہ عرف بلال کریمی کے سفارتی اسناد کو باضابطہ قبول کرلیا۔
صدر شی جن پنگ طالبان کے سفیر کو سرکاری طورپر قبول کرنے والے پہلے سربراہ مملکت ہیں۔ گزشتہ سال طالبان کے وزیر اعظم حسن آخوند نے چین کے نئے سفیر کو اپنے ملک میں خیر مقدم کہا تھا۔
گرچہ دنیا کے بیشتر ممالک طالبان کو اب بھی اچھوت سمجھتے ہیں اور اس کے ساتھ سفارتی روابط قائم نہیں کیے ہیں لیکن چین افغانستان کے ساتھ سفارتی اور اقتصادی روابط مسلسل بڑھا رہا ہے اور یہ کابل کے لیے خوشی کا موجب ہے۔
طالبان حکومت کی علاقائی طاقتوں سے تعلقات استوار کرنے کی کوشش
طالبان حکومتی اہلکار دونوں ملکوں کے حکام کے درمیان اعلیٰ سطحی ملاقاتیں، معدنیات کے نئے سودے اور آمد و رفت کے راستوں کو بہتر بنانے کے اقدامات کے متعلق خبروں کو بڑے پیمانے پر نشر کر رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں اور سفارت کاروں کا کہنا ہے کہ گوکہ بیجنگ ان بڑھتے ہوئے روابط کو اجاگر کرنے کی کوشش نہیں کررہا ہے لیکن وہ سرمایہ کاری اور اپنی موجودگی میں مسلسل اضافہ کررہا ہے۔ اور یہ ایک ایسا تعلق ہے جو دونوں فریقین کو فائدہ پہنچا سکتا ہے۔
افغانستان میں چین کے بڑھتے قدم
پیرس میں فاونڈیشن فار اسٹریٹیجک ریسرچ کے تجزیہ کار ویلیری نیکیٹ کا کہنا ہے،”افغانستان ایک جوکھم بھرا علاقہ ہے لیکن چینیوں کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ وہاں بھی جاتے ہیں اور فوائد حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں، جہاں کوئی اور نہیں جاتا۔
انہوں نے مزید کہا، “چین افغانوں کی طرف ہاتھ بڑھا رہے ہیں، جنہیں ہر ممکن مدد کی ضرورت ہے۔”
طالبان کے سفیر کے سفارتی اسناد قبول کیے جانے کے بعد چین کی وزارت خارجہ نے کہا،”ہمیں یقین ہے کہ جب تمام فریقین کے تحفظات زیادہ بہتر طورپر دور کیے جائیں گے تو افغان حکومت کی سفارتی شناخت فطری طور پر عمل میں آجائے گی۔”
مکمل سفارتی تعلقات سے قبل طالبان اصلاحات متعارف کرائیں، چینی مطالبہ
گزشتہ ماہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں افغانستان کے لیے خصوصی ایلچی کی تقرری کا مطالبہ کرنے والی تجویز پرووٹنگ سے چین غیر حاضر رہا تھا۔
طالبان نے اس تجویز کی سخت مخالفت کی تھی۔
چین کو اپنے فائدے میں دلچسپی
بین الاقوامی برادری چاہتی ہے کہ طالبان لڑکیوں اور خواتین کو تعلیم اور کام کرنے کی پوری آزادی دے، ایک زیادہ جامع حکومت متعارف کرائے اور اقلیتوں کو زیادہ تحفظ فراہم کرے۔ لیکن چین کے ضابطے بیجنگ کو کسی حکومت کو باضابطہ تسلیم کیے بغیر بھی سفیروں کے تبادلے کی اجازت دیتے ہیں اور وہ باقی دنیا سے بھی اپنے تعلقات برقرار رکھتا ہے۔
نکیٹ کا کہنا تھا،”بنیادی طورپر چین خواتین کے حقوق کی پرواہ نہیں کرتا اور اگر اسے طالبان حکومت سے زیادہ قریب ہونے میں دلچسپی ہے تو وہ کوئی شرائط عائد نہیں کرے گا۔”
چین کے بیلٹ اینڈ روڈ کے منصوبے میں باضابطہ طور پرشمولیت کا ارادہ رکھتے ہیں، طالبان
دوسری طرف طالبان افغانستان کی سرحد سے متصل چین کے سنکیانگ علاقے میں ایغور مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی مبینہ زیادتیوں اور حقوق کی خلاف ورزیوں پر خاموش رہیں گے۔
نگاہیں افغانستان کی معدنی دولت پر
اس کے انعام کے طورپر چین کو افغانستان میں معدنی وسائل کی دولت تک رسائی ہوجائے گی اور اسے اپنی اشیاء کے لیے ایک مارکیٹ بھی مل جائے گی۔
کابل کی کاردان یونیورسٹی میں سیاسیات کے پروفیسر جلال بازوان نے کہا،”افغانستان کے وسیع قدرتی وسائل مثلاً تانبا، لیتھیئم یا نایاب معدنی اشیاء چین کے لیے اہم اقتصادی اہمیت رکھتے ہیں۔
بلال کریمی نے سفارتی اسناد قبول کیے جانے کے فوراً بعد چین کی سرکاری کمپنی ایم سی سی سے مس عینک کے متعلق بات چیت کی۔ کابل سے 40 کلومیٹر دور یہاں دنیا کا تانبے کا دوسرا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔
توانائی میں بھی دلچسپی
ہائیڈروکاربن کا خواہش مند چین کو افغانستان میں ممکنہ طورپر موجود تیل میں بھی کافی دلچسپی ہے۔
افغان کی وزارت کان کنی کا کہنا ہے کہ شمال مغرب میں واقع آمو طاس کے متعلق جنوری 2023 میں ایک پرانے معاہدے کی تجدید کے بعد اٹھارہ کنووں میں چین افغان مشترکہ کھدائی جاری ہے۔
افغان حکام نے ملک میں شمسی توانائی کے شعبے میں چینی کمپنیوں کی جانب سے نصف بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے منصوبوں کا بھی اعلان کیا ہے۔
چین کابل میں اپنا سفیر تعینات کرنے والا پہلا ملک بن گیا
وزارت تعمیرات عامہ کے مطابق بدخشاں کو چینی سرحد سے جوڑنے کے لیے 300 کلومیٹر طویل سڑک زیر تعمیر ہے۔
گوکہ دنوں ملکوں کے درمیان صرف 76 کلومیٹر طویل سرحد ہے لیکن مجوزہ سڑک کی تعمیر سے تجارت کو نمایاں طور پر فروغ حاصل ہو گا، جو فی الحال سالانہ صرف ڈیڑھ بلین ڈالر ہے
سکیورٹی چین کے لیے ایک اہم مسئلہ
افغانستان میں اپنے پاوں پھیلانے کے باوجود سرمایہ کاری کی حفاظت چین کے لیے اہم ہے۔
دسمبر 2022 میں کابل کے ایک ہوٹل پر چینی شہریوں کے ایک گروپ پر حملے نے بیجنگ کو چوکنا کردیا تھا اور اس نے طالبان حکام پر سکیورٹی کو بہتر بنانے کے لیے زور دیا تھا۔
بازوان کا کہنا تھا، “طالبان نے چین کو یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ افغانستان کی سرزمین کو اپنے پڑوسیوں کے خلاف دہشت گردانہ حملوں کے لیے استعمال کرنے کی اجازت نہیں دے گا۔
حالانکہ پاکستان کا الزام ہے کہ کابل نے اپنے اس وعدے پر عمل نہیں کیا ہے۔
‘سافٹ پاور’ کا بھی استعمال
تعلقات کو بڑھانے کے اقدامات کے طورپر بیجنگ انسانی امداد فراہم کرکے، بالخصوص ہلاکت خیز زلزلوں کے بعد، اپنے ‘سافٹ پاور’ کا بھی استعمال کررہا ہے۔
کابل میں ایک چھوٹا سا ”چائنا ٹاون” بھی ہے، جہاں دو آٹھ منزلہ عمارتوں میں سستی چینی مصنوعات فروخت ہوتی ہیں۔
اس عمارت کے اوپری حصے میں چینی زبان میں “بیلٹ اینڈ روڈ” تحریر ہے۔ یہ چین کا وہ وسیع منصوبہ ہے جو اسے وسطی ایشیا اور باقی دنیا سے جوڑے گا۔ جب کہ افغانستان کو بھی چین پاکستان سی پیک معاہدے میں شامل کیا جاسکتا ہے۔
بازوان کا کہنا تھا،”بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو پر افغانستان کی اسٹریٹیجک پوزیشن اسے ایک پرکشش شراکت دار بناتی ہے۔”