چین کی جانب سے قرض کی ایک اور رقم ملنے کے بعد اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے پاس موجود زرمبادلہ کے ذخائر میں 487 ملین ڈالر کا اضافہ ہوگیا۔
پاکستان کے زر مبادلہ کے ذخائر 3 مارچ تک 4.3 بلین ڈالر تھے ۔
یہ چوتھا اضافہ ہے جو ہفتہ وار بنیادوں پر مرکزی بینک کے زیر قبضہ ذخائر میں ہوا، لیکن مجموعی رقم اب بھی ایک ماہ سے بھی کم درآمدات کا احاطہ کرنے کیلئے ناکافی ہے اور صورتِ حال تاحال نازک ہے۔
پاکستان کے پاس کل مائع غیر ملکی ذخائر 9.75 بلین ڈالر ہیں۔ جبکہ کمرشل بینکوں کے پاس موجود خالص غیر ملکی ذخائر 5.45 بلین ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔
ملک کے مرکزی بینک کا کہنا ہے کہ ”3 مارچ 2023 کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران، اسٹیٹ بینک کے ذخائر 487 ملین ڈالر بڑھ کر 4.3 بلین ڈالر ہوئے ہیں، جس کی وجہ 500 ملین ڈالر ہیں جو چین کی جانب سے حکومت پاکستان کو تجارتی قرضے کے طور پر موصول ہوئے ہیں“۔
گزشتہ ہفتے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے انڈسٹریل اینڈ کمرشل بینک آف چائنہ (ICBC) سے 500 ملین ڈالر کی وصولی کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ اضافی قسط جلد موصول ہو جائے گی۔
اسحاق ڈار نے کہا تھا کہ رسمی کارروائیاں مکمل ہو چکی ہیں اور آئی سی بی سی نے 1.3 بلین ڈالر کی مشترکہ سہولت کے رول اوور کی منظوری دے دی ہے، جس کی ادائیگی حالیہ مہینوں میں پاکستان نے کی تھی۔
گزشتہ ہفتے، چینی ترقیاتی بینک کے کمرشل قرض کی وجہ سے اسٹیٹ بینک کے پاس موجود زرمبادلہ کے ذخائر 556 ملین سے ڈالر بڑھ کر 3.81 بلین ڈالر ہوئے تھے۔
مرکزی بینک کے ذخائر، جو 2022 کے آغاز میں تقریباً 18 بلین ڈالر تھے، حالیہ مہینوں میں ان میں نمایاں کمی آئی ہے۔ جس سے پاکستان کے لیے بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (IMF) پروگرام کا اگلا جائزہ مکمل کرنے کی فوری ضرورت پر زور بڑھتا جارہا ہے۔
یہ پروگرام گزشتہ سال سے تعطل کا شکار ہے لیکن اسلام آباد اس کی بحالی کے لیے آئی ایم ایف کے ساتھ مصروف عمل ہے۔
گزشتہ ماہ، آئی ایم ایف مشن نے عملے کی سطح کے معاہدے پر دستخط کیے بغیر اسلام آباد چھوڑ دیا، اور اس کے بجائے چار پیراگراف کا ایک مختصر بیان جاری کیا، جس میں پچھلے سال سے تعطل کا شکار بیل آؤٹ کو بحال کرنے کے لیے پیشگی شرائط کی بروقت تکمیل پر زور دیا گیا۔
دریں اثنا، جمعرات کو وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے ایک بار پھر کہا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ عملے کی سطح کے معاہدے پر اگلے چند دنوں میں دستخط ہونے کی امید ہے۔
انہوں نے کہا، ”ہم نویں جائزے کے عمل میں ہیں۔“
وزیر خزانہ نے مزید کہا کہ ”میرے خیال میں اس میں میری سوچ سے زیادہ وقت لگا ہے، تاہم ہم اگلے چند دنوں میں عملے کی سطح کے معاہدے پر دستخط کرنے کے بہت قریب ہو گئے ہیں۔“
آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے میں تاخیر کا اثر روپے پر پڑا جو جمعرات کو انٹر بینک مارکیٹ میں 3.18 روپے یا 1.13 فیصد گر کر 282.3 پر بند ہوا۔
غیر ملکی کرنسی کے ذخائر کی کمی نے معیشت پر دباؤ ڈالا ہے جو اپنا انجن چلانے کے لیے درآمدات پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہے۔
اسٹیٹ بینک نے اس عمل میں کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو کم کرتے ہوئے اندرون ملک ترسیل پر کچھ پابندیاں عائد کی ہیں، جس کے نتیجے میں بہت سے کاروبار یا تو بند کردئے گئے ہیں یا اپنے آپریشنزمحدود کرنے پر مجبور ہو گئے ہیں، کیونکہ پالیسی ساز ڈالر کی آمد کا بندوبست کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔