یہ 1510ء کی بات ہے جب پرتگال نے بھارت کے مغربی ساحل پر واقع شہر گوا کو فتح کیا تھا، جس کے بعد وہاں بسے کئی افراد اپنا مذہب تبدیل کر کہ مسیحیت اپنا لی تھی۔ ان میں اکثریت کیتھکولک مسیحیوں کی تھی، جو اپنے مذہب اور شہر کی نسبت سے ‘گوان کیتھولک’ کہلائے۔
انیسویں صدی میں گوا کے کیتھولک مسیحیوں میں سے چند افراد نے شہر تبدیل کر کہ کراچی میں رہائش اختیار کر لی، جہاں انہوں نے اپنے کاروبار شروع کیے اور وقت کے ساتھ ساتھ اس شہر میں ان کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہا۔
سن 1886 میں اس کمیونٹی نے کراچی میں گوا پرتگالی ایسوسی ایشن قائم کی۔ اس کے ساتھ ہی اس کمیونٹی میں شامل افراد کی جانب سے کراچی میں متعدد تعلیمی ادارے اور دلکش عمارتیں تعمیر کی گئیں۔
چنانچہ اس دور کے کراچی اور اس کی ثقافت میں گوان رنگ واضح نظر آتا ہے، جو کہ 1947ء میں پاکستان کی آزادی کے لبمے عرصے بعد تک نمایاں رہا۔
جدید کراچی کی ’بانی‘ گوان کمیونٹی
پھر ایسا کیا ہوا کہ 1980 کی دہائی میں کراچی میں گوان کیتھولک کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد کم ہونے لگی؟
کراچی سے جانے کی وجہ ‘معاش و روزگار’
فریڈی نزاریت، جن کے دادا کراچی میں پیدا ہوئے تھے، کہتے ہیں کہ بہت سے گوان کمیونٹی کے افراد نے معاشی وجوہات کی بنا پر کراچی چھوڑا۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران بتایا، “میری والدہ حقیقی معنوں میں گوان تھیں۔ میرے والد کا تعلق بھارتی شہر منگلور سے تھا اور ان کا خاندان گوا سے منگلور منتقل ہوا تھا۔”
وہ کہتے ہیں کہ پہلے پہل کراچی چھوڑنے والے گوان کیتھولک افراد ان اینگلو انڈینز میں شامل تھے جو برطانیہ منتقل ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ بعد ازاں، ان میں سے کئی افراد نے کینیڈا نے رہائش اختیار کی۔
کراچی میں ایک این جی او سے تعلق رکھنے والے کرسٹوفر واز بھی کہتے ہیں گوان کیتھولک افراد “کی آبادی (کراچی میں) اس لیے کم ہوئی کیونکہ ہم یہاں اقلیت ہیں اور اس لیے ہمارے پاس روزگار کے مواقع محدود ہیں”۔ وہ کہتے ہیں کہ اسی وجہ سے اس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے کئی خاندان کینیڈا، آسٹریلیا اور امریکہ منتقل ہو چکے ہیں۔
اسکرٹ اور بلاؤز پر اعتراض
آرکیٹیکٹ عارف حسن گوان کیتھولک افراد کے بڑی تعداد میں کراچی کو خیر باد کہنے کی اور وجہ بتاتے ہیں۔
کراچی میں گوان کیتھولک کمیونٹی کے تاریخی پس منظر پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کے دوران بتایا، “گوا سے تعلق رکھنے والے افراد کی پہلے پہل کراچی آمد کیتھولک اداروں کے ساتھ بطور اساتذہ ہوئی تھی۔ یہ 1850 کی دہائی کا وہ وقت تھا جب برطانوی افراد نے کراچی میں تجارت اور اپنے کاروبار شروع کیے تھے۔” عارف حسن کے مطابق اس کے بعد 1870 کی دہائی میں گوا سے مزید مسیحی افراد کراچی آئے۔
بقول ان کے کراچی میں “ان کے (گوان کیتھولکس) کے اسکول اور چرچ 1850 کی دہائی اور بیسویں صدی کے آغاز کے درمیان تعمیر ہوئے”۔
یہ وہ دور تھا جب مسیحی گوان کمیونٹی کے افراد کسی مسئلے کا سامنا کیے بغیر صدر اور اس کے اطراف کے علاقوں میں اپنے محلوں میں تقریبات منعقد کیا کرتے تھے۔ لیکن 1970 کی دہائی میں لوگوں نے اس کمیونٹی کی خواتین کے لباس پر اعتراض کرنا شروع کر دیا۔
عارف حسن اس بارے میں کہتے ہیں، “1970 کی دہائی کے آواخر میں پاکستان نیشنل الائنس کی تحریک کے دوران ان خواتین کے لباس پر اعتراضات کیے گئے، کہ وہ اسکرٹ اور بلاؤز پہنتی ہیں، جس کے بعد وہ (گوان کیتھولکس) کراچی سے جانے لگے۔ میرے خیال میں انہوں نے اسی اور نوے کی دہائی میں کراچی چھوڑنا شروع کیا تھا۔”
کراچی میں گوان مسیحی افراد ‘خاموش زندگی گزار رہے ہیں’
اس وقت کراچی میں مقیم گوان مسیحیوں کی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے لیکن اس شہر میں رہنے والی ڈیلفین ڈی میلو کا اندازہ ہے کہ ان کی تعداد ہزاروں میں ہوگی۔
کراچی میں کاروبار کرنے والے مینن روڈریگیز کا بھی یہی خیال ہے۔ گوان میسیحیوں کے حوالے سے اپنی کتاب ‘فٹ پرنٹس آن دی سینڈز آف ٹائم — ہسٹاریکل ریکلیکشنز اینڈ رگلیکشنز، گوانز آف پاکستان’ میں وہ لکھتے ہیں کہ کراچی میں مقیم گوان افراد دس ہزار سے بھی کم ہوں گے اور دیگر شہریوں کی نسبت وہ یہاں زیادہ “خاموش” زندگی گزار رہے ہیں۔
نزاریت نے بھی گزشتہ برسوں میں اس کمیونٹی میں رونما ہونے والی چند تبدیلیوں کی نشاندہی کی ہے۔ وہ کہتے ہیں، “پرانے دنوں میں (گوان) خواتین (کراچی میں) فراکیں پہنے نظر آتی تھیں، لیکن جب میں دو تین مہینے پہلے وہاں گیا تو خواتین کی اکثریت کو شلوار قمیض پہنے دیکھا۔ میں نے حال ہی میں ایک گوان شادی میں بھی شرکت کی تھی اور وہاں بھی خواتین نے شلوار قمیض ہی پہنا ہوا تھا۔ انہوں نے باقاعدگی سے فراکیں پہن کر چرچ جانا بھی چھوڑ دیا ہے کیونکہ پھر انہیں (ان چاہے)تبصرے سننے کو ملیں گے۔”