مویشیوں کی ایک دوا گِدھوں کیلئے خطرہ بن گئی، پارسیوں کی آخری رسوم کا انعقاد بھی دشوار
ایک زمانہ تھا کہ بھارت میں گِدھ بہت بڑی تعداد میں پائے جاتے تھے۔ ان کا وجود ماحول کو متوازن رکھنے کے لازم تھا کیونکہ گِدھ مردار خور ہوتے ہیں۔ دیہی علاقوں میں اور غیر آباد، جنگلی خطوں میں مرنے والے جانوروں کو گِدھ کھا جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے ان جانوروں کے مردہ اجسام کی سڑاند سے ماحول کو زیادہ نقصان نہیں پہنچتا۔
گِدھوں کی تعداد میں کمی کے حوالے سے ایک رپورٹ میں برطانوی نشریاتی ادارے نے بتایا کہ بھارت اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں گِدھ بڑی تعداد میں ہوا کرتے تھے۔ وہ لینڈ فِلز کے گرد منڈلاتے رہتے تھے۔ سڑکوں پر اور میدانوں میں مرنے والے کتوں، بلیوں اور دیگر جانوروں کو گِدھ کھا جایا کرتے تھے۔
سڑکوں پر اور میدانوں میں پڑے ہوئے مردہ جانوروں کے سڑتے گلتے جسم ماحول کے لیے انتہائی خطرناک ہوا کرتے تھے کیونکہ بہت سے کیڑے مکوڑے اِن سڑے گلتے جانوروں پر پلتے تھے اور ماحول کو خراب کرنے کے ساتھ ساتھ مختلف بیماریاں پھیلانے کا سبب بھی بنتے تھے۔
بھارت، پاکستان اور جنوبی ایشیا کے دیگر ممالک میں گِدھوں کی تعداد میں کمی کا ایک بنیادی سبب مویشیوں کو دی جانے والی عمومی دوا ہے جس میں ڈائیکلوفنیک ایسڈ ہوتا ہے۔ یہ دوا عام طور پر گایوں کو دی جاتی ہے تاکہ ان کی تیزابیت کا علاج ہو۔1990 کی دہائی کے وسط تک بھارت میں 5 لاکھ گِدھ کم ہوتے ہوتے صفر کے نزدیک پہنچ گئے۔ ڈائیکلوفنیک ایک سستی نان اسٹرائیڈ درد کش دوا ہے۔
مویشیوں کو دی جانے یہ دوا گِدھوں کے لیے انتہائی خطرناک ثابت ہوئی ہے۔جن مویشیوں کو یہ دوا دی جاتی رہی ہو ان کے مردے کھانے سے گِدھ بھی موت کے منہ میں جاتے رہے ہیں۔ بہت سے دوسرے پرندے بھی اِسی صورت موت کا شکار ہوتے رہے ہیں۔گِدھوں کی تعداد میں خطرناک حد تک کمی واقع ہونے سے مردہ جانوروں کے گلنے سڑنے سے بہت سی بیکٹیریا کو تیزی سے پنپنے کا موقع ملا اور یوں بہت سی بیماریاں پھیلتی گئیں۔
امریکن اکنامک جرنل میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں نیورسٹی آف شکاگو کے ہیرس اسکول آف پبلک پالیسی کی اسسٹنٹ پروفیسر ایال فرینک نے لکھا ہے کہ بھارت بھر میں گِدھوں کی تعداد میں تشویش ناک حد تک کمی واقع ہونے سے پھیلنے والی بیماریوں میں مبتلا ہوکر پانچ سال سے زائد مدت میں کم و بیش پانچ لاکھ افراد موت کے منہ میں جاچکے ہیں۔شہروں میں یہ صورتِ حال زیادہ پریشان کن ہے کیونکہ وہاں مرے ہوئے جانوروں کو کہیں بھی پھینک دیا جاتا ہے اور ان کے گلنے سڑنے سے ماحول آلودہ ہوتا جاتا ہے۔
2000 سے 2005 کے دوران گِدھوں کی کمی سے سالانہ ایک لاکھ اضافی اموات واقع ہوئیں۔ قبل از اموات کے نتیجے میں مجموعی طور پر معیشت کو پہنچنے والا نقصان 69 ارب ڈالر ہے۔ گِدھوں کی تعداد میں کمی کے نتیجے میں آوارہ کتوں کی تعداد تیزی سے بڑھی ہے اور اس کے نتیجے میں انسانوں کے لیے ریبیز کا خطرہ کئی گنا ہوگیا۔اب گِدھوں کی تعداد بڑھانے پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔
بہت سے مخصوص مقامات پر گِدھ پال کر فضا میں چھوڑے جارہے ہیں۔ بھارت کے بہت سے علاقوں میں گِدھوں کی تعداد اب بھی خطرناک حد تک کم ہے۔ مردہ جانوروں کو کھانے والے یہ بڑے پرندے نہ ہونے کے باعث ماحول میں آلودگی کا تناسب بڑھ رہا ہے۔2019 کے لائیو اسٹاک سروے کے مطابق بھارت میں 50 کروڑ مویشی ہیں۔ مرنے والے مویشیوں کو ٹھکانے لگانے میں گِدھ کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔