چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰ نے کہا ہے کہ ہم پالیمان کو قانون سازی کا حکم نہیں دے سکتے، ہم سمجھتے ہیں ہر ادارے کو اپنی حدود میں رہنا چاہیئے۔ تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ میں لاپتا افراد اور جبری گمشدگیوں سے متعلق کیس کی سماعت جاری ہے جہاں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں 3 رکنی بنچ اس کیس کی سماعت کررہا ہے، سماعت میں وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائیکورٹ کی فیصلے کے خلاف اپیلیں واپس لے لیں۔
سماعت کے آغاز پر لاپتہ افراد کیس میں درخواست گزار خوشدل خان نے اپنے دلائل میں کہا کہ ’عدالت حکومت کو جبری گمشدہ افراد سے متعلق قانون سازی کا حکم دے‘ جس پر جسٹس محمد علی مظہر نے کہا کہ ’جبری گمشدگیوں سے متعلق کمیشن بنا تو ہوا ہے‘، اس پر چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ ’کون سا کمیشن بنا ہے؟‘ جس پر درخواست گزار نے بتایا کہ ’جسٹس ریٹائرڈ جاوید اقبال کی سربراہی میں کمیشن بنایا گیا لیکن اس نے اب تک کچھ نہیں کیا‘۔
درخواست گزار خوشدل خان نے اپنے دلائل میں مزید کہا کہ ’عدالت حکومت کو نوٹس کرکے پوچھے لاپتا افراد کے بارے میں قانون سازی کیوں نہیں کی؟‘ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’عدالت کیسے پارلیمنٹ کو حکم دے سکتی ہے کہ فلاں قانون سازی کرو؟ آئین کی کون سی شق عدالت کو اجازت دیتی ہے کہ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حکم دے؟ کیا سپریم کورٹ پارلیمنٹ کو قانون سازی کا حکم دے سکتی ہے؟ ہم سمجھتے ہیں ہر ادارے کواپنی حدود میں رہنا چاہیئے‘۔
دوران سماعت جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیئے کہ ’عدالت قانون سازی کا اختیار نہیں رکھتی صرف قانون کالعدم قرار دے سکتی ہے‘ اس کے بعد اعتزاز احسن کے وکیل شعیب شاہین نے اپنے دلائل کا آغاز کیا تو چیف جسٹس پاکستان نے شعیب شاہین کو کہا کہ ’آپ تو اعتزاز احسن کے وکیل نہیں ہیں؟‘ جس پر شعیب شاہین نے بتایا کہ ’لطیف کھوسہ کا بیٹا گرفتار ہے تو مجھے وکالت نامہ دیا گیا ہے‘۔
اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے شعیب شاہین نے کہا کہ ’ہماری درخواست پر اعتراضات عائد کیے گئے ہیں‘، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ ’اعتراضات کو خارج کرکے درخواستیں سن رہے ہیں کیوں کہ یہ عوامی مفاد کا معاملہ ہے، میری غیرموجودگی میں کچھ ہوا اور میں نے واپس آتے ہی یہ درخواستیں سماعت کے لیے مقرر کی ہیں، ہم آفس کی جانب سے لگائے گئے اعتراضات ختم کرتے ہیں کیوں کہ ہم سمجھتے تھے مسنگ پرسنز کا مسئلہ اہم ہے تو کیس لگا دیا‘۔