وکیل صاحب ترمیم کے بعد صرف پروسیجر تبدیل ہوا ہے لیکن سپریم کورٹ اب بھی ازخود نوٹس لے سکتی ہے فرق صرف یہ ہے کہ اب ازخود نوٹس آئینی بینچ میں چلے گا اور یہ بات ذہن نشین کر لیں آئینی بینچ ازخود نوٹس لے سکتا ہے، سماعت کے دوران ریمارکس
سپریم کورٹ آف پاکستان میں انسداد دہشت گردی کے ایک کیس کی سماعت کے دوران آئینی بینچ میں شامل جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ یہ بات ذہن یاد رکھیں کہ آئینی بینچ ازخود نوٹس لے سکتا ہے،آئینی بینچ کے سامنے انسداد دہشت گردی کے ایک کیس پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت ہوئی۔وکیل درخواست گزار منیر پراچہ نے کہا کہ اس کیس میں مزید کارروائی کی ضرورت نہیں ہے۔
26ویں آئینی ترمیم کے بعد اب سپریم کورٹ ازخود نوٹس لے ہی نہیں سکتی۔جسٹس محمد علی مظہر نے ریمارکس دئیے کہ وکیل صاحب ترمیم کے بعد صرف پروسیجر تبدیل ہوا ہے لیکن سپریم کورٹ اب بھی ازخود نوٹس لے سکتی ہے فرق صرف یہ ہے کہ اب ازخود نوٹس آئینی بینچ میں چلے گا اور یہ بات ذہن نشین کر لیں آئینی بینچ ازخود نوٹس لے سکتا ہے۔
جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ ہم اس ایشو کو کسی اور کیس میں سنیں گے جب کوئی آئے گا۔
عدالت نے وکیل کے دلائل کے بعد کیس نمٹا دیا۔واضح رہے کہ گزشتہ روز سپریم کورٹ آف پاکستان کے آئینی بینچ نے پہلے دن ہی 18 مقدمات کی سماعت مکمل کرلی تھی۔15کیسوں کو خارج کرتے ہوئے مجموعی طور پر60ہزار کے جرمانے عائدکئے گئے تھے۔آئینی بینچ نے تین کیسوں پر سماعت ملتوی کر دی تھی۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 6 رکنی آئینی بینچ نے پہلے روز 18 کیسز کی سماعت کی تھی۔
جسٹس جمال مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس حسن اظہر رضوی اور جسٹس نعیم اختر افغان آئینی بینچ کا حصہ تھے۔ آئینی بینچ نے 18 کیسز کی ڈیڑھ سے زائد گھنٹہ سماعت کی تھی۔آئینی بینچ نے 3 غیر سنجیدہ درخواست گزاروں پر 20،20 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیاتھا۔آئینی بینچ نے سابق صدر عارف علوی کی بطور صدر مملکت تقرری کے خلاف دائر درخواست پر آئینی بینچ نے درخواست گزار کو دوبارہ سماعت کا نوٹس جاری کر دیاتھا۔
عدالتی عملے نے بتایا تھاکہ درخواست گزار کو بھیجے گئے نوٹس کی سروس نہیں ہوسکی تھی۔ جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے تھے کہ ایسی درخواستیں جرمانے کے ساتھ خارج ہوں تو ہی حوصلہ شکنی ہوگی۔بینچ نے دوبارہ نوٹس جاری کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی تھی۔جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے 6 رکنی آئینی بینچ نے عام انتخابات 2024 ری شیڈیول کرنے سے متعلق درخواست پر سماعت کی تھی۔
دوران سماعت ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے مو¿قف اپنایا کہ انتخابات ہوچکے ہیں یہ درخواست غیر مو¿ثر ہوچکی تھی۔ جس پر جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا تھاکہ وکیل نہیں آئے ان پر بھاری جرمانہ ہونا چاہیئے۔بعد ازاں عدالت نے عام انتخابات 2024 ری شیڈیول کرنے کی درخواست خارج کر دی تھی جبکہ آئینی بینچ نے درخواست غیرمو¿ثر ہونے پر خارج کی تھی۔جسٹس امین الدین کی سربراہی میں 6 رکنی بینچ میں سابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسٰی کی بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائیکورٹ تعیناتی کے خلاف دائر نظرثانی درخواست پر سماعت ہوئی تھی۔
درخواستگزار وکیل حنیف راہی نے موقف اختیار کیا کوئی بھی شخص پہلے جج بنے بغیر براہ راست چیف جسٹس نہیں بن سکتا جس پر جسٹس جمال مندوخیل نے ریمارکس دئیے نظرثانی میں دوبارہ اصل کیس نہیں کھول سکتے اور جسٹس مسرت ہلالی نے ریمارکس دئیے کہ مقدمہ قانونی نہیں سیاسی ہے۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہاتھا کہ کیسز میں پرسنل نہ ہوا کریں، چھوڑ دیں قاضی صاحب کی جان۔
جسٹس مسرت ہلالی نے کہا تھاکہ یہ فورم سیاسی تقاریر اور نہ بیک بائٹنگ کا ہے، قانون سے نہیں ہٹ سکتے۔ جسٹس محمد علی مظہر نے کہا تھاکہ آپ غصے میں کیوں آ رہے؟ عدالت کی بات سنیں۔جسٹس مسرت ہلالی نے کہا کہ مقدمات میں ذاتیات پر نہیں آتے، یہ مقدمہ قانونی کم اور سیاسی زیادہ لگ رہا ہے، پیٹھ پیچھے کسی کی برائی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔بعدازاں عدالت عظمیٰ کے آئینی بنچ نے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف دائر نظرثانی درخواست خارج کر دی تھی۔