سعودی عرب کے آرمی چیف کا ایران کا غیر معمولی دورہ

اس دورے کو اس لحاظ سے غیر معمولی قرار دیا جارہا ہے کہ ایک وقت کے سخت ‍حریف ایران اور سعودی عرب نے باہمی عسکری اور دفاعی شعبوں میں تعاون پر بات چیت کی ہے۔

سعودی عرب کے آچیف آف جنرل اسٹاف فیاض بن حامد الرویلی کا تہران کا دورہ ایسے وقت ہوا ہے جب ریاض میں عرب اسلامک سمٹ میں سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ ایران کی خودمختاری کا احترام کرے اور ایرانی سرزمین پر حملہ کرنے سے باز رہے۔

گزشتہ سال چین کی ثالثی میں دونوں ممالک کے مابین تعلقات کی بحالی کے بعد سے یہ ایک غیر معمولی اعلیٰ سطحی ملاقات ہے۔

سعودی ولی عہد کی ایرانی وزیر خارجہ سے ملاقات، کیا باتیں ہوئیں؟

سعودی وزارت دفاع کے مطابق ملاقات میں دونوں ملکوں نے عسکری اور دفاع کے شعبوں میں تعاون بڑھانے، سکیورٹی تعاون کو مضبوط بنانے اور خطے کے استحکام پر تبادلہ خیال کیا۔

جنرل الرویلی نے بیجنگ معاہدے کی تعریف کی۔ ان کا کہنا تھا کہ بیجنگ معاہدہ ایران اور سعودی عرب کے تعلقات بڑھانے کی ایک اچھی بنیاد ہے۔ اس معاہدے کو سعودی عرب ایک اسٹریٹجک موقع سمجھتا ہے۔

ایرانی خبر رساں ایجنسی فارس کے مطابق جنرل باقری نے ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان سکیورٹی تعاون میں اضافہ کا ذکر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں خوشی ہو گی اگر سعودی بحریہ آئندہ سال بحری مشقوں میں حصہ لے یا مبصر کی حیثیت سے شریک ہو۔

تہران ریاض تعلقات درست سمت میں گامزن، ایرانی وزیر خارجہ

جنرل الرویلی نے کہا کہ دونوں ممالک کی مسلح افواج کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون کی سطح میں بہتری کے مواقع موجود ہیں۔

سابقہ حریفوں کے درمیان تعلقات میں گرم جوشی

سعودی عرب اور ایران کے تعلقات 2016 میں منقطع ہو گئے تھے تاہم مارچ 2023 میں چین میں ایک معاہدے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات بحال کرنے اور ایک دوسرے کے ممالک میں سفارت خانے کھولنے پر اتفاق کیا تھا۔

جس کے بعد سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں ایران کا سفارت خانہ دوبارہ کھول دیا گیا تھا۔

سفارتی تعلقات کی بحالی کے دونوں ممالک کے درمیان کئی براہ راست رابطے اور دورے ہو چکے ہیں۔ رواں سال جون میں ایران نے سعودی عرب کے دارالحکومت میں اپنا سفارت خانہ کھولا تھا۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سعودی جنرل کا دورہ تہران بدلتے ہوئے علاقائی حالات اور سعودی ایران تعلقات میں بہتری کا اشارہ ہے۔

ایران کی طرف سے بحری مشقوں میں شرکت کی دعوت علاقائی استحکام اور نئے امکانات کی خبر دے رہی ہے۔

تجزیہ کار ریاض میں عرب اسلامک سربراہی اجلاس میں ایران کے حوالے سے سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے اس بیان کو بھی مشرق وسطیٰ کے دیرینہ حریف ممالک کے درمیان تعلقات میں گرمجوشی قرار دے رہے ہیں۔ سنی مسلم اکثریتی سعودی عرب اور شیعہ اکثریتی ایران اکثر شام سمیت علاقائی تنازعات پر ایک دوسرے کے مخالف کیمپوں میں رہے ہیں۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں