کیا ایمرجنسی کی شق 232 (6) کے تحت الیکشن ملتوی کئے جائیں گے خیبر پختونخوا میں انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن کئے جائیں گے، کسی کو گھر سے نکالا نہیں جائے گا، وزیر داخلہ

وفاقی وزیر داخلہ اور پاکستان مسلم لیگ (ن) پنجاب کے صدر رانا ثناء اللہ کا سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بینچ کی تشکیل پر کہنا ہے کہ پارلیمان نے ایک قانون سازی کی ہے جو کہ اس کا بنیادی حق ہے، ابھی وہ اِن پروسیس ہے، اس نے ایکٹ کا درجہ اختیار نہیں کیا۔ اس سے پہلے ہی اس پر نوٹس لے کر چیف جسٹس کی سربراہی میں بینچ بنا دیا گیا ہے۔ جبکہ چیف جسٹس کا اپنا جو مفاد ہے وہ متنازع ہے۔ انہوں نے جو ججز ساتھ بٹھائے ہیں اس میں ہر سطح پر یہ بات کی جاتی ہے کہ ن لیگ کے خلاف فیصلوں میں وہی ججز حصہ ہوتے ہیں۔ یہ بڑے ہی دکھ اور افسوس کی بات ہے۔

 کہ یہ انتہائی قابل اعتراض معاملہ ہے، ہم اس بینچ کی تشکیل کو بھی چیلنج کریں گے اور اس کی ٹائمنگ کو بھی چیلنج کریں گے کہ ابھی قانون بنا نہیں ہے اور انہوں نے پہلے ہی اس کا نوٹس لینا شروع کردیا ہے۔ جبکہ سپریم کورٹ کے متعدد فیصلے موجود ہیں کہ کسی بھی ایکٹ کے معرض وجود میں آنے سے پہلے اس کا نوٹس نہیں لیا جاسکتا۔

توہین عدالت کی صورت میں وزیراعظم شہباز شریف کی نااہلی پر ان کی جگہ کسی اور کو دئے جانے کے سوال پر انہوں نے کہا کہ ’توہین عدالت اس وقت ہوگی جب سپریم کورٹ کا کوئی حکم آفیسر یا وزیراعظم نہیں مانیں گے، پہلی بات تو یہ کہ وزیراعظم کو تو کوئی ڈائریکشن (ہدایت) ہوئی ہی نہیں ہے، وزیراعظم کے متعلق تو کوئی حکم پاس ہی نہیں ہوا، اور دوسری بات یہ کہ وہاں کوئی حکم تو ہے ہی نہیں، یعنی فیصلہ تو وہ ہے جو چار تین کی ریشو (تناسب) سے ہوا ہے، یعنی مائنورٹی ججمنٹ (اقلیتی فیصلہ) ہے، مائنورٹی ججمنٹ کوئی فیصلہ نہیں کہلاتی۔‘

ان کا کہنا تھا کہ 16 اگست کے بعد ہم نہیں ہوں گے، نگراں حکومت ہوگی۔ 21 مئی سے پہلے پی ڈی ایم کی قیادت فیصلہ کرچکی تھی کہ ہم تاریخ کا اعلان کریں اور ہم الیکشن کی طرف چلے جائیں گے حکومت چھوڑ دیں۔ یہ میاں نواز شریف کا بڑا دو ٹوک فیصلہ تھا۔ اس کے بعد اُس (عمران خان) نے اعلان کردیا کہ میں 25 کو آرہا ہوں۔ اس کے بعد پی ڈی ایم کی قیادت نے یہ فیصلہ منسوخ کیا، اس فیصلے کا ذمہ دار یہ ہے۔

رانا ثناء اللہ کا مزید کہنا تھا کہ ’آئین کے مطابق اکتوبر میں الیکشن ہونے ہیں وہ تو ہوں گے، لیکن اس کا کوئی پتا نہیں نا کہ یہ کوئی اور کارنامہ دکھا دے، کل کو یہ کہے کہ مجھے یہ کئیر ٹیکر سیٹ اپ (نگراں حکومت) قبول نہیں ہے میں تو الیکشن میں حصہ نہیں لوں گا۔ یہ چیف الیکشن کمشنر استعفا دے ورنہ میں نے الیکشن میں حصہ نہیں لینا، اس کا کوئی پتا ہے؟ پاگل آدمی ہے یہ، کل کو کوئی بھی اسٹانس (مؤقف) لے سکتا ہے‘۔

عمران خان کے کہنے پر الیکشن ملتوی ہوجائیں گے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’بالکل یہ صورتحال پیدا ہوسکتی ہے، اب یہ جو الیکشن کروانا چاہتا ہے، یہ آئین کا تقاضہ تو نہیں ہے یہ اس کی ضد کا تقاضہ ہے، اس کی ہٹ دھرمی کا تقاضہ ہے، اس کی فتنہ گری کا تقاضہ ہے‘۔

عمران خان اگر اٹک جائیں تو الیکشن ملتوی ہوسکتے ہیں؟ اس پر انہوں نے کہا کہ ایسے الیکشن ہوں بھی جائیں تو کیا فائدہ ، وہ تو ملک کو افراتفری اور انارکی کی طرف دھکیلیں گے، ’اور شاید اس بندے (عمران خان) کا نصب العین اور مقصد بھی یہی ہے، یہ ملک میں انارکی چاہتا ہے افراتفری چاہتا ہے‘۔

آپ کونسے قانون کے تحت الیکشن ملتوی کریں گے؟ اس سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’اس سے پہلے جب الیکشن ڈیلے (تاخیر کا شکار) ہوتے رہے ہیں تو کونسے قانون کے تحت ہوتے رہے ہیں؟ بینظیر بھٹو جب شہید ہوئی تھیں تو کونسے قانون کے تحت ہوئے تھے، جب ایک مہینہ ڈیلے ہو سکتے ہیں تین مہینہ بھی ہوسکتے تھے‘۔

کیا آرٹیکل 232 (6) جو ایمرجنسی کی شق ہے اسکے تحت الیکشن ملتوی کئے جائیں گے؟

اس کے جواب میں رانا ثناء اللہ نے کہا کہ ایسی صورتحال ہوئی تو آئین و قانون کے تقاضے پورے کرکے ایسا کیا جائے گا۔

رانا ثناء اللہ نے کہا کہ عمران خان سیاستدانوں کے ساتھ بیٹھ کر ڈائیلاگ کرے معاملہ فہمی کرے تو اس نے جو دس سالوں سے ملک میں بحران پیدا کیا ہوا ہے تو یہ بحران بالکل پیدا نہ ہو۔

انہوں نے کہا کہ جب تک عوام نے اس فتنے کا اپنے ووٹ سے ادراک نہیں کیا اسے مائنس نہیں کیا اس ملک میں سیاسی استحکام نہیں آئے گا۔ الیکشن تو ہوں گے اور عوام اس فتنے کو اپنے ووٹ کی طاقت سے مائنس کرے گی۔

ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ جب کوئی فیصلہ ہی نہیں ہے تو وزیراعظم کو توہین عدالت کس طرح لگ جائے گی؟

سوال: الیکشن کمیشن کے وکیل سجیل سواتی نے عدالت میں کہا کہ سیکٹر کمانڈر آئی ایس آئی نے انہیں بتایا کہ جو دہشتگرد ہیں وہ ایک شیڈو گورنمنٹ چلا رہے ہیں۔ اس کے بعد نیشنل سکیورٹی کمیٹی کا بھی ایک اجلاس ہوا جہاں پر آپ نے کہا کہ ملٹری آپریشن ہوگا۔ تو کیا ملٹری آپریشن کی منظوری دیدی گئی ہے؟ کیونکہ اس کے خلاف اے این پی نے آواز اٹھائی ہے محسن داوڑ نے اس کے خلاف بات کی ہے، کیا مشاورت کے بغیر آپ لوگ خیبرپختونخوا میں ملٹری آپریشن کرنے جارہے ہیں؟

جواب میں وزیر داخلہ کا کہنا تھا کہ ’ساری مشاورت اس میں ہوچکی ہے، سب کے ساتھ ہوچکی ہے، اور جو ملٹری آپریشن ہے وہ کوئی اس طرح کا آپریشن نہیں ہے جس کے طرح کے آپریشنز پہلے ہوئے ہیں، انٹیلی جنس بیسڈ آپریشن ہوں گے اور وہ ہو رہے ہیں اس وقت، بلکہ روز ہورہے ہیں۔ روز ہمارے جوان اور افسر جو شہید ہو رہے ہیں اس کی خبر تو میڈیا کی زینت بن جاتی ہے، لیکن اس کے علاوہ درجنوں سیکڑوں آپریشنز ہیں جو خبر کی زینت کم بنتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ’جیسے پہلے آپریشنز ہوتے تھے کہ علاقے خالی کروائیں لوگوں کو باہر نکالیں ایسے کوئی آپریشنز نہیں ہوں گے، نہ کوئی ایسا ارادہ ہے نہ ایسی کوئی ضرورت ہے ، کیونکہ کوئی ایسا پارٹ نہیں ہے جہاں طالبان کی کوئی رٹ ہو‘۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں