کراچی سندھ کے وزیر محنت سعید غنی نے اعتراف کیا ہے کہ اگر میئر کراچی کے لیے پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی کے ارکان مل جائیں تو ہمارے 9 ارکان کم ہیں۔ کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پی پی کی جانب سے الیکشن کے بعد سے تحریک انصاف سے سپورٹ کی کوئی درخواست نہیں کی گئی، جماعت اسلامی کو ووٹ نہ دینے پر پی ٹی آئی ممبرز کا اتفاق ہو چکا تھا۔
سعید غنی نے کہا کہ کہا جا رہا ہے پی ٹی آئی ارکان کو گرفتار کرکے ووٹ دینے سے روکا جا رہا ہے، یہ نہیں ہو سکتا کہ ممبرز ووٹ دینا چاہتے ہیں تو 9 مئی واقعے کے بعد ہم انہیں گرفتار نہ کریں، اصولی طور پر سمجھتا ہوں کہ اگر وہ جیل میں ہوئے تو ووٹ دینے کے لیے انہیں لایا جانا چاہیے۔
وزیر محنت نے کہا کہ پی ٹی آئی کے اکثر ممبر خود جماعت اسلامی کو ووٹ نہیں دینا چاہتے، انھوں نے کہا تھا اگر کراچی کے مسائل حل کرنے ہیں تو پیپلز پارٹی کا میئر بہتر ہوگا، جماعت اسلامی کہہ رہی تھی کہ حلقے بھی پیپلز پارٹی نے بنائے ہیں، بلدیاتی الیکشن کی حلقہ بندیاں ہمیشہ سے حکومتیں کرتی تھیں، 2013 میں قانون بنایا گیا تھا اور اسی کے تحت حلقہ بندی حکومت نے کرنی تھی، لیکن عدالت نے کہا کہ حلقہ بندیاں کرنا حکومت کا نہیں الیکشن کمیشن کا کام ہے۔
سعید غنی نے کہا حافظ نعیم کی دلیل مان بھی لیں تو 2015ء میں بھی پیپلز پارٹی نے حلقہ بندیاں کی تھیں، اس وقت تو ہم نہیں جیتے، ایم کیو ایم کا میئر بن گیا تھا، اس بار جو حلقہ بندیاں ہوئیں وہ الیکشن کمیشن نے کی ہیں ہم نے نہیں، ہم تو اب بھی چاہتے ہیں کہ جماعت اسلامی کے ساتھ بیٹھیں اور آگے بڑھیں، اگر میئر کے انتخاب میں جماعت اسلامی کو اکثریت ملتی ہے تو میئر بن جائیں، اگر انہیں ووٹ نہیں ملتا تو پھر جو بھی نتائج ہوں کھلے دل سے تسلیم کریں۔