وفاقی وزیر خزانہ سینیٹر اسحاق ڈار نے جمعہ کو بجٹ 2023-24 پیش کرنے کے بعد ہفتہ کو پوسٹ بجٹ پریس کانفرس کی جس میں ان کا کہنا تھا کہ بجٹ کو حتمی شکل دینے سے پہلے کاروباری طبقے کے تحفظات دور کریں گے، پرائیوٹ پبلک سیکٹرکو لے کر چلنے سے ملک کا پہیہ چلےگا، کاروباری طبقے کے تحفظات دور کرنے کیلئے ایف بی آر کی دو کمیٹیاں بنا رہے ہیں، سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کی جائز سفارشات کو بھی سنجیدگی سے لیا جائے گا۔
اسحاق ڈار پریس کانفرنس میں قومی اسمبلی و سینیٹ میں پیش کئے جانے والے وفاقی بجٹ برائے مالی سال 24-2023 کے خدوخال بیان کئے اور اس پر تفصیلی روشنی ڈالی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کا مقصد ابہام دور کرنا ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ایف بی آر کے ریونیو کا ہدف 9200 ارب روپے ہے، جبکہ حکومت کے کل اخراجات 14 ہزار 400 ارب روپے ہیں۔
وزیر خزانہ نے بتایا کہ پنشن کیلئے761 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ضم اضلاع کیلئے 61 بلین روپے رکھے ہیں، ترقیاتی بجٹ کیلئے تاریخی رقم رکھی گئی ہے، وفاق کا ترقیاتی بجٹ 1150 ارب روپے مختص کیا گیا ہے، آئی ٹی اور سائنس کیلئے 33 ارب روپے رکھے گئے ہیں اور صوبوں کا ترقیاتی بجٹ 1559 ارب روپے مختص کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پچھلی حکومت نے پبلک قرضے بڑھا دیے ہیں، قرضوں کی مد میں اس بجٹ میں بھی بڑی رقم جائے گی، سود کی اداٸیگی کیلئے 7 ہزار 303 ارب روپے رکھے ہیں۔
اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ آئندہ سال مہنگائی کی شرح 21 فیصد رہے گی۔
ان کا کہنا تھا کہ پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) پر شفاف طریقے سے عمل کیا تو نظام بہتر ہوجائے گا، ہم بجٹ کے اہداف حاصل کریں گے، گروتھ ہوگی تو ملک کا پہیہ صحیح چلے گا، ترقی ہوگی تو لوگوں کو روزگار ملے گا، زرعی شعبہ معیشت کی بہتری میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ آئندہ مالی سال ترقی کی شرح کو 3.5 فیصد رکھا ہے، افراط زر کا ہدف 21 فیصد ہے، جی ڈی پی میں ٹیکسوں کا تناسب 8.7 فیصد ہے۔
انہوں نے کہا کہ قرض بلحاظ جی ڈی پی 66.5 فیصد پر لے آئیں گے، ٹیکس ٹو جی ڈی پی کی شرح 8.7 فیصد رہنے کا امکان ہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہم نے یہ بجٹ روایت سے ہٹ کر بنایا ہے، زراعت پر خصوصی توجہ دی ہے، زرعی شعبہ سب سے زیادہ فائدہ دیتا ہے، پوری کوشش کریں گے واپس گروتھ کی طرف جانا ہے، ملک کو دوبارہ ترقی پر ڈالنا ہے۔
اس حوالے سے انہوں نے کہا کہ ٹیوب ویلزکو سولر پر منتقل کرنے کیلئے 50 ارب روپے رکھے ہیں، وزیراعظم کے کسان پیکج کی وجہ سے زراعت میں بہتری آئی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اعلیٰ معیار کے بیج پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، زرعی بیج پر ٹیکس ڈیوٹی ختم کردی گئی ہے، زرعی مشینوں کی امپورٹ پربھی ڈیوٹی ختم کردی ہے۔ پی ایم زرعی اسکیم کیلئے 10 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔ سستی کھاد کیلئے 6 بلین کی سبسڈی رکھی گئی ہے۔
وزیر خزانہ ڈار نے کہا کہ غذائی قلت پر قابو پانے کیلئے فی ایکڑ پیداوار بڑھانے کی ضرورت ہے، زرعی قرضوں کیلئے 2225 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نئی ایگرو بیڈ صنعت کیلئے اس بجٹ میں سہولت دی گئی ہے، درآمدی یوریا کیلئے بجٹ میں رقم مختص کی گئی ہے، یوریا کی پیداوار کیلئے گیس کی فراہمی لازمی ہے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ آئی ٹی سیکٹر کے لیے خصوصی اکنامک زونز جلد مکمل کریں گے، سالانہ 24 ہزار ڈالرز آئی ٹی ایکسپورٹرز کو سیلز ٹیکس چھوٹ دی گئی ہے، ترقی یافتہ ممالک کی چھوٹی اور درمیانی صنعتیں (ایس ایم ایز سیکٹر) بہت آگے ہے، ہمارا ایس ایم ای سیکٹر بہت پیچھے ہے، ایس ایم ایز کے لیے کریڈٹ ریٹنگ ایجنسی شروع کریں گے، ترسیلات زر بڑھانے کے لیے نئے اقدامات کریں گے۔
وزیرخزانہ نے کہا کہ اوورسیز پاکستانیوں کو گھر خریدنے پر ٹیکس سے استثنا دیا گیا ہے اور گولڈن کارڈ کی سہولت دی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ 90 فیصد برآمدات کے مساوی رقم بیرون ملک سے پاکستانی بھیجتے ہیں، اوورسیز پاکستانیوں کیلئے ڈائمنڈ کارڈ متعارف کرا رہے ہیں، سالانہ 50 ہزار ڈالر بھجوانے پر سہولیات دی جائیں گی، جن میں سفارتخانوں میں آسان رسائی اور فاسٹ ٹریک امیگریشن بھی شامل ہے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف کا خیال ہے کہ شرح نمو 4 فیصد ہو سکتی ہے، قرضوں پر سود کی ادائیگی سب سے بڑا بوجھ ہے، 4 سال میں قرض بھی دگنا ہوگیا اور شرح سود بھی 21 فیصد ہوگئی، شرح نمو بہتر ہوگئی تو روزگار کے مواقعے پیدا ہوں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان ایٹمی قوت ہے اب معاشی قوت بھی بننا ہے، میرے نزدیک معاشی استحکام ہو چکا، اب ہم نے شرح نمو بڑھانے کی طرف جانا ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ویمن ایمپاورمنٹ کے لئے بجٹ میں رقم رکھی ہے، بیواؤں کے ہاؤس بلڈنگ فنانس کارپوریشن کا قرض حکومت ادا کرے گی، اگلے سال ایک لاکھ لیپ ٹاپ اسکیم کیلئے 10 ارب رکھے گئے ہیں، توانائی کے شعبے میں سولر وغیرہ کے خام مال پر کسٹم ڈیوٹی ختم کردی ہے، آٹا، گھی، تیل، دالوں پر ٹارگٹڈ سبسڈی کے لئے 35 ارب رکھے ہیں، کوشش ہے کہ یہ رقم بڑھا کر 40 ارب روپے کردی جائے۔
انہوں نے کہا کہ سرکاری ملازمین کی مہنگائی سے کمر ٹوٹ گئی ہے، اسی لئے ایک سے سولہ گریڈ کے ملازمین کو 35 فیصد، 17 سے 22 گریڈ تک 30 فیصد ایڈہاک ریلیف دیا گیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں اسحاق ڈار نے کہا کہ ایڈہاک ریلیف الاؤنس میں جب اسپیس ملتا ہے، تب تنخواہ میں شامل کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ پنشنرز کے لئے 17.5 فیصد اضافہ کیا ہے، جس کے بعد کم از کم پنشن 12 ہزار روپے ہو جائے گی۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ کم از کم تنخواہ 25 ہزار کو 32 ہزار روپے کردیا ہے، صحافیوں کے لئے ہیلتھ انشورنس کارڈ کی تجویز ہے، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ 450 ارب روپے کردیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ جہاں کم از کم تنخواہ پر عمل نہیں ہورہا، وہ لوگ حکومت کو شکایت بھیجیں، حکومت کو الہام نہیں ہوتا کہ کہاں کیا تنخواہ دی جارہی ہے۔ ملازمین کو کم سے کم اجرت نہ دینے والوں کےخلاف شکایات سے حکومت کو آگاہ کیا ہے، وزارت داخلہ کے ذریعے شکایات کا ازالہ کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا کہ یوٹیلیٹی اسٹورز کیلئے 32 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ دودھ پر 9 فیصد ٹیکس لگانے کی بات درست نہیں، ملک میں 90 فیصد کھلا دودھ بکتا ہے، صرف تجاویز تھی کہ ڈبے کے دودھ پر ٹیکس لگایا جائے، دودھ پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا، کل سے ٹی وی پر دیکھ رہا ہوں، دودھ پرٹیکس کی خبر چل رہی ہے، وضاحت کر رہا ہوں کہ دودھ پر کوئی ٹیکس نہیں لگایا۔
ان کا کہنا تھا کہ 200 ارب روپے کے ٹیکس اقدامات معیشت کو دستاویزی بنانے کے لئے ہیں، بینک ٹرانزکشن پر ٹیکس نیا نہیں، پچھلی حکومت نے اس ٹیکس کو ختم کیا تھا، بینک ٹرانزکشن پر ٹیکس ڈائریکٹ ہے، اس سے مہنگائی نہیں بڑھے گی، نئے ٹیکس اقدامات براہ راست ہیں۔
وزیر خزانہ نے مزید بتایا کہ ریسٹورنٹ میں کریڈٹ اور ڈیبٹ کارڈ سے ادائیگی پر 5 فیصد ٹیکس ہوگا، اس سے قبل ریسٹورنٹ میں ڈیجیٹل کارڈ سے ادائیگی پر ٹیکس 15 فیصد تھا، ریسٹورنٹ میں نقد ادائیگی پر 15 فیصد ٹیکس ہوگا۔
انہوں نے کہا کہ 11 لاکھ ڈالر لانے کی ایمنسٹی اسکیم نہیں دی گئی، یہ اسکیم 5 سال پرانی ہے۔ کچھ لوگوں نے کہا ہم نے زیادہ سبسڈی دی ہے، پلان بی پر عوامی سطح پر بات نہیں ہوسکتی۔ پاکستان ڈیفالٹ نہیں کرے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ ڈیفالٹ کی رٹ لگانے والے خود ذمہ دار ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ 50 ہزار تک کیش نکلوانے پر سابق حکومت نے 0.6 فیصد ٹیکس ختم کیا جو کہ نہیں ختم کرنا چاہیے تھا۔
وزیر خزانہ کا مزید کہنا تھا کہ خورنی تیل کی درآمد پر سیلز ٹیکس ختم نہیں کیا، عالمی منڈی میں خورنی تیل کی قیمتیں کم ہوئی ہیں، وزارت سے کہا ہے کہ اس پر نظر رکھیں، بجٹ میں خورنی تیل پر ٹیکس ختم کرنے کا اعلان نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ شریعہ کمپلائنٹ یکم جولائی سے دستیاب ہوں گے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ پیٹرولیم لیوی سے 869 ارب روپے حاصل ہوں گے، ایف بی آر کا ٹیکس ہدف بھی حاصل ہو جائے گا، افراط زر اور شرح نمو سے 1800 ارب روپے حاصل ہو جائیں گے، صرف 200 ارب روپے کے نئے ٹیکس اقدامات لیے ہیں، پیٹرولیم لیوی 50 روپے فی لیٹر سے نہیں بڑھائی گئی۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ ہم ایک ہزار ارب روپے سالانہ سبسڈی نہیں دے سکتے، بجلی سیکٹر میں فیصل آباد اور اسلام آباد کی ریکوری اچھی ہے، پاکستان میں 10 ڈسکوز پر بجلی کا ایوریج ریٹ لگانے سے نقصان کم ہوسکتا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ایئرپورٹس کی آؤٹ سورسنگ کا پلان ہے، امید ہے جولائی میں آؤٹ سورسنگ کیلئے پہلی بولی کا انعقاد ہوگا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ آئی ایم ایف سے کہا ہے نواں جائزہ مکمل کرلیں، ہم چاہتے ہیں دسواں جائزہ جلد شروع ہو، ہم نے مشکل اصلاحات کی ہیں، بیرونی قرضہ 3.75 ارب ڈالر کم ہوگیا ہے، ہوسکتاہے آئندہ سال ہم ہی بیٹھے ہوں بجٹ میں، اگلی حکومت کس کی ہوگی اللہ کو پتا ہے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ ٹریژری بلز عوام کو براہ راست بیچنا چاہتے ہیں، اس سلسلے میں دو سے تین ہفتے میں کام ہوگا، مقامی قرضوں کے حوالے سے کوئی پریشانی نہیں۔
اسحاق ڈار نے مزید کہا کہ حکومت اور کابینہ کی حد تک ملک میں انتخابات کروانے کے لیے رقم بجٹ میں رکھ دی گئی ہے جس کا مطلب ہے کہ الیکشن وقت پر ہونے چاہئیں۔
انہوں نے کہا کہ کوئی ایسا بیان حکومت نے نہیں دیا کہ الیکشن میں تاخیر ہوگی۔ ہم نے مذاکرات کر کے بجٹ میں الیکشن کمیشن کے لیے عام انتخابات کے پیسے رکھ دیے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے اتحادیوں کو بات کرنے کا حق ہے، انہوں نے کوئی غیر آئینی بات نہیں کی۔۔۔ اگر دو پارٹیوں کے رہنماؤں نے ایسا کہا ہے تو ہم نے اس بات کریں گے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ الیکشن میں تاخیر کی باتیں غیر آئینی نہیں اور آئین میں اس کی گنجائش ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’اتحادیوں کا حق ہے، ہم انہیں ڈکٹیٹ نہیں کر سکتے۔ انہوں نے کوئی غیر آئینی بات نہیں کی۔ آپ کے آئین میں ہے۔ اگر خدانخواستہ متعلقہ شق لاگو ہوتی ہے، میں کسی کو ڈکٹیٹ نہیں کر سکتا۔‘
واضح رہے کہ گزشتہ روز اسحاق ڈار نے آئندہ مالی سال کا 14 کھرب 460 ارب روپے کا بجٹ قومی اسمبلی و سینیٹ میں پیش کیا، بجٹ کا خسارہ 7570 ارب روپے ہے جو جی ڈی پی کا 6.5 فیصد بنتا ہے۔
دوسری جانب نجی ٹی وی جیو نیوز کو دیئے گئے انٹرویو میں اسحاق ڈار کا کہنا تھا کہ میں 25 سال سے ڈیل کر رہا ہوں، عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) نے کبھی اتنی تاخیر نہیں کی۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ آئی ایم ایف تاخیر جیو پولیٹیکل معاملات کی وجہ سے کر رہا ہے۔
وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ ہم نے چار ارب ڈالر فائنانسنگ کا بندوبست کر لیا تھا، آئی ایم ایف مزید دو ارب ڈالر کی فائنانسنگ کا بندوبست کرنے کا کہہ رہا ہے۔