دنیا میں بھوک بڑھ گئی، فاقہ کشی پر مجبور لوگوں کی تعداد میں 12 کروڑ کا اضافہ عالمی وبا کورونا اور روس یوکرین جنگ دنیا میں غذائی قلت کی وجہ بنی

اقوام متحدہ نے کہا کہ عالمی وبا کورونا اور روس یوکرین جنگ کی وجہ سے 2019 سے لیکر اب تک دنیا بھر میں بھوکے رہنے والوں کی تعداد 12 کروڑ اضافے کے ساتھ 73 کروڑ ہوگئی ہے۔

غیرملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق اسی طرح کا سلسلہ جاری رہا، تو 2030 تک تقریباً 60 کروڑ لوگ دائمی طور پرغذائی قلت کا شکار ہوجائیں گے۔ تقریباً 11.9 کروڑ اتنی تعداد نہیں بڑھتی اگر مذکورہ واقعات رونما نہیں ہوتے۔

اس کے ساتھ ہی 2019 سے 2020 کے دوران عالمی سطح پر بھوک کا سامنا کرنے والے افراد کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہونے کے بعد استحکام آیا ہے لیکن خوراک اور زراعت کی تنظیم (ایف اے او) کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ کے مطابق مغربی ایشیا، کیریبین اور پورے افریقہ میں بھوک اب بھی بڑھ رہی ہے۔

ایف اے او کے ڈائریکٹر جنرل کیو ڈونگیو کا کہنا ہے کہ عالمی وبا سے بحالی ناہموار رہی ہے اور یوکرین میں جنگ نے خوراک کو متاثر کیا ہے، ایک نئی لہر آئی ہے، جہاں موسمیاتی تبدیلی، تنازعات اور معاشی عدم استحکام نے انسان کی پریشانی بڑھادی ہے۔

گندم، مکئی اور سورج مکھی کا تیل پیدا کرنے والے یوکرین پر روس کے حملے کی وجہ سے عالمی سطح پر خوراک کی قیمتوں میں بے انتہا اضافہ ہوا ہے اور جبکہ ایف اے او کا فوڈ پرائس انڈیکس گرگیا ہے لیکن اس کے اثرات اب بھی محسوس کیے جا رہے ہیں۔

سالانہ اسٹیٹ آف فوڈ سیکیورٹی اینڈ نیوٹریشن ان دی ورلڈ رپورٹ کا 2023 ایڈیشن یہ بتاتا ہے کہ دنیا وسیع اور فوری غذائی بحران کی لپیٹ میں ہے۔

دوسری جانب 2022 میں ایک اندازے کے مطابق 90 کروڑ افراد یا عالمی آبادی کا 11.3 فیصد شدیدغذائی عدم تحفظ کا شکار تھے، جس کی تعریف اس وقت کی گئی ہے، جب کسی شخص کا کھانا ختم ہوجائے یا سال کے دوران پورا دن بغیر کھائے گزر جائے۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ تقریباً تین میں سے ایک شخص 2.4 ارب یا دنیا کی 29.6 فیصد آبادی کو خوراک تک مستقل رسائی حاصل نہیں تھی۔ لاکھوں بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ 2022 میں پانچ سال سے کم عمر کے 4.5 کروڑ بچے غذائی قلت کا شکار تھے، جوغذائی قلت کی سب سے مہلک شکل تھی اور اسی عمر کے 14.8 کروڑ بچوں کی نشوونما رک گئی تھی۔

ایف اے او کے چیف اکانومسٹ اور رپورٹ کے مرکزی مصنف میکسیمو ٹوریرو نے خبردار کیا کہ موسمیاتی بحران نے 2022 میں بھوک کی سطح کو اتنا متاثر نہیں کیا جتنا کہ یوکرین میں وبائی امراض اور جنگ سے ہوا ہے لیکن اس کا وقت کے ساتھ شدید اثر پڑے گا۔

آکسفیم کی پالیسی لیڈ پولین چیٹکوٹی کا کہنا ہے کہ حکومتوں کے لیے یہ ناقابل معافی ہے کہ وہ دنیا بھر میں اربوں لوگوں کو بھوکے ہوتے دیکھ رہے ہیں، جبکہ خوراک اور توانائی کی کمپنیوں نے گزشتہ سال اپنے منافع کو دگنا سے زیادہ کیا ہے، جب دنیا کی تقریباً ایک تہائی آبادی شدیدغذائی عدم تحفظ کا شکار تھی۔

برٹش ریڈ کراس کے مطابق مغربی افریقہ کے ممالک موسمیاتی بحران کے اثرات کے ساتھ ساتھ علاقائی تنازعات، اور خوراک کی قیمتیں کورونا اور یوکرین میں جنگ کے بعد غذائی اجناس کی قیمتوں میں شدید اضافہ دیکھ رہے ہیں۔

برٹش ریڈ کراس کے سینئر ڈیزاسٹر مینیجمنٹ کوآرڈینیٹر الیکس ویڈ نے کہا کہ نائیجیریا میں خوراک کی شدید قلت کا سامنا کرنے والے لوگوں کی تعداد صرف پچھلے دو سالوں میں بڑھ گئی ہے۔

اس کا ایک اہم محرک موسمیاتی تبدیلی ہے، جس نے گزشتہ سال تباہ کن سیلابوں کا امکان بہت زیادہ بڑھا دیا ہے جس کی وجہ سے فصلیں تباہ اور خوراک کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوا ہے۔

Spread the love

اپنا تبصرہ بھیجیں