لاہور سیالکوٹ پولیس نے آج صبح دعویٰ کیا کہ معروف صحافی اور ٹی وی اینکر عمران ریاض خان محفوظ طریقے سے اپنے گھر پہنچ گئے ہیں۔عمران ریاض گزشتہ چار ماہ سے بھی زائد عرصے سے لاپتہ تھے اور ان کی بازیابی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں ایک کیس چل رہا تھا۔عمران ریاض کو نو مئی کو پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک بھر میں ہونے والے پرتشدد مظاہروں کے دو دن بعد گرفتار کیا گیا تھا۔
گرفتاری کے بعد انہیں آخری بار تھانہ کینٹ اور بعد ازاں سیالکوٹ جیل لے جایا گیا تھا۔ پھر اس کے بعد 15 مئی کو ایک لاء افسر نے لاہور ہائی کورٹ کو یہ بتایا تھا کہ صحافی عمران ریاض کو تحریری حلف نامے کے بعد جیل سے رہا کر دیا گیا۔ تاہم گرفتاری کے بعد سے وہ کبھی گھر واپس نہیں آئے اور ان کا کچھ پتہ بھی نہیں تھا کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔
ان کی بازیابی کے لیے عدالت میں مقدمہ دائر کیا گیا اور عدالت میں حکام ان کے ٹھکانے کے بارے میں لاعلمی کا اظہار کرتے رہے۔ بیس ستمبر کو لاہور ہائی کورٹ نے سماعت کے دوران پنجاب پولیس کے سربراہ کو 26 ستمبر تک ریاض کو بازیاب کرانے کا ”آخری موقع” دیا تھا۔ عمران ریاض کے وکیل میاں علی اشفاق نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی عمران ریاض کی بازیابی کے بعد ان سے ان کی رہائشگاہ پر تین گھنٹے طویل ملاقات ہوئی ہے،انہوں نے دعویٰ کیا کہ عمران ریاض کی جسمانی اور ذہنی حالت بہت زیادہ اچھی نہیں ہے۔
وہ صدمے کا شکار ہیں اور گذشتہ چار ماہ میں ان کا وزن بھی کم ہوا ہے۔وہ اس وقت صحیح طرح سے بول بھی نہیں پا رہے یہاں تک کہ انہیں بات سمجھانے اور جملہ مکمل کرنے میں بھی دقت کا سامنا ہے۔میاں علی اشفاق کا کہنا ہے کہ عمران ریاض کے علاج اور ان کی ذہنی صحت کو بہتر بنانے کے لیے وہ ضروری میڈیکل ٹیسٹ کروائیں گے اور ڈاکٹرز سے رجوع کریں گے۔مجھے لگتا ہے کہ اس پورے عمل میں کم سے کم تین سے چار ماہ کا وقت لگ سکتا ہے۔
جب وہ مکمل صحتیاب ہو جائیں گے تو ہی ان کی ہدایات پر عمل کرکے قانونی معاملات کو آگے بڑھایا جائے گا۔جب کہ صحافی شاہد اسلم کے مطابق عمران ریاض کے اہلخانہ نے بتایا کہ پیر صبح پانچ بجے سیالکوٹ پولیس کے اہلکار عمران ریاض کے گھر پہنچے اور انہیں اہلخانہ کے حوالے کیا۔انہوں نے اس موقع پر پولیس کی جانب سے اہلخانہ سے رسید بھی لی گئی کہ عمران ریاض بحفاظت گھر پہنچ چکے ہیں۔